دھند کی شکل بھی کوئی دید میں آئی چاہیے
صورت و صدا کی موج ہے آں طرف سکوت تک
حالت خامشی کو بھی اک شنوائی چاہیے
ایسا نگار دلنشیں ایسا خیال آفریں
اس کا جواب ہی نہیں، اس سے جدائی چاہیے
جس کو جاں کہا کرو، جاں کو جہاں کہا کرو
میں تو کہوں کہ لفظ کی، قید اٹھائی چاہیے
ایک تھی بس خدا کی ذات، یار عجیب تھی یہ بات
ایسی ہی کوئی دوسری بات، یار بنائی چاہیے
ہم ہیں جمال کے فقیر، سب کے دعائےدلپذیر
شہر جمال میں ہمیں، سب سے بھلائی چاہیے
شوق خدائی کا بجا، خود میں بھی آؤ اک ذرا
اپنی طرف بھی اک نظر، اے مرے بھائی! چاہیے
شہر ہی شہر ہیں کہ ہیں، کوئی نہیں شہر خیز
آؤ چلو کہ شہر شہر، دھوم مچائی چاہیے
جون ایلیا