چشمکِ انجم ( جشن آزادی کے موقع پر)

چشمکِ انجم ( جشن آزادی کے موقع پر)
حیاتِ نو تری جیبِ اجل دریدہ میں
کیا تھا رشتہء انفاس سے رفو ہم نے
بتا صبیحہء محشر خرام ِآزادی
تجھے تلاش کیا تھا نہ کو بہ کو ہم نے
خزاں نصیب ہیں لیکن نگارِگلشن کو
عطا کیا سروسامانِ رنگ و بو ہم نے
کبھی مورخِ فصل جنوں سے کر معلوم
کیا ھے کتنے مقاتل کو سرخرو ہم نے
امامِ شہر سے پوچھ اس نماز خوف کا حال
کیا تھا جس کے لئے خون سے وضو ہم نے
ہو صرف چشمکِ انجم نصیبِ خوش نظری
یونہی تو کی تھی شعاعوں کی جستجو ہم نے
یہی کہو ، ہمیں لب تشنگی ہی راس آئے
پیا ھے زہرِ ملامت کنار جو ہم نے
خود اپنے آپ کو الجھا لیا ، یہی تو کیا
سنوار کر تری زلفوں کو مو بہ مو ہم نے
کیا قبول پلاسِ درشتی گفتار
بہ نقدِ ریشمِ تہذیبِ گفتگو ہم نے
ہو صرف باغچہء قصرِ اہلِ زر شاداب
اسی غرض سے بہایا تھا کیا لہو ہم نے؟
نگاہ میں کوئی صورت ، بہ جز غبار نہیں
یہ وہ بہار نہیں ھے یہ وہ بہار نہیں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *