ہم تو ہیں بسمل سے تڑپتے، تم بھی کچھ بے حال ہوئے
میں جو شمال سبز گیا تھا، پیلا ہو کر لوٹا ہوں
شہروں نے وہ یورش کی ہے، سب جنگل پامال ہوئے
میری محبت تیری رقیبی، دونوں کا تھا ایک نصیب
اس کی گلی کو چھوڑ کے ہم تم، دونوں بے اقبال ہوئے
میرا اپنا طور عجب تھا ورنہ اس کے کوچے میں
میرے سوا سارے ہی ہنر ور، کتنے مالا مال ہوئے
کتنے بگولے بیچ میں اٹھے، حال گرو افشانی میں
آئینے پر زنگ وہ آیا، ہم سب بے تمثال ہوئے
سود و زیاں کی بات ہی کیا ہے، سود و زیاں کی بات بھی کیا
تم شاخوں کی کونپل ٹھہرے، ہم پیڑوں کی چھال ہوئے
شوق نے جب سے بستی چھوڑی، اپنی پر احوالی کی
سارے غمزے جھوٹے نکلے، سب عشوے جنجال ہوئے
ہم میدان شکست جاں کی کیا روداد کہیں تم سے
تیغ دو رم تھے یار ہمارے، ہم یاروں کی ڈھال ہوئے
مر کے بھی کچھ کم تو نہیں تھا اپنا سوز زخم جگر
پر تم مجھ سے کچھ مت پوچھو، جو حملے امسال ہوئے
جون ایلیا