حساب داریِ سودوزیاں سے چل نکلو

حساب داریِ سودوزیاں سے چل نکلو
میاں یہاں کی نہیں اور ہاں سے چل نکلو
میری سُنو زمان و مکاں میں رہتے ہوئے
بہ صد سلیقہ زمان و مکاں سے چل نکلو
یہ تیرے لوگ نہیں ہیں یہ تیرا شہر نہیں
یہ مشورہ ہے مرا تو یہاں سے چل نکلو
یہ جو بھی کچھ ہے نہیں کچھ بھی جُز فریبائی
یقیں کو چھوڑ دو یعنی گماں سے چل نکلو
شبِ گزشتہ خراباتیوں میں تھا یہ سوال
کہاں کا رُخ کرو آخر کہاں سے چل نکلو
نفس نفس ہے وجود و عدم میں اک پیکار
ہے مشورہ یہ میرا درمیاں سے چل نکلو
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *