کبھی اک خواب سا دیکھا تھا میں نے
کہ تم میری ہو اور میرے لیے ہو
تمھاری دلکشی میرے لیے ہے
میں جو کچھ ہوں تمھارے ہی لیے ہوں
تمھاری ہر خوشی میرے لیے ہے
وہ راتیں آہ وہ سرمست راتیں
کہ جن کی تشنہ لب سرمستیوں نے
سرورِ تشنگی بخشا تھا مجھ کو
تمھاری والہانہ بیخودی نے
غرورِ دلبری بخشا تھا مجھ کو
تمھارے جسم کی جاں پروری نے
جمالِ سرمدی بخشا تھا مجھ کو
ہماری باہمی انگڑائیوں نے
یقینِ زندگی بخشا تھا مجھ کو
یقینِ جاں فضا، خوابِ تمّنا
عذابِ روح بن جائے گا اِک دن
کبھی میں نے یہ سوچا بھی نہیں تھا
یہ ہوگی خواب کی تعبیر یعنی
کہ میں نے خواب دیکھا ہی نہیں تھا
جو میری آرزو کا نقش گر ہے
کبھی وہ دور گزرا ہی نہیں تھا
وہ راتیں خواب ہو کر رہ گئیں ہیں
مگر خوابوں میں خوابوں کا تسلسل
عذابِ جاں بھی ہے جاں آفریں بھی
یہ زنجیرِ خیال و خواب و اوہام
فریبِ زندگی بھی ہے یقین بھی
سُلا کر حال کی تاریکیوں میں
مجھے ماضی میں چونکاتے ہیں یہ خواب
میری پلکوں کو بوجھل دیکھتے ہی
سمٹ جاتے ہیں شرماتے ہیں یہ خواب
میں اِن خوابوں سے جب بھی رُوٹھتا ہوں
تو پہروں اَشک برساتے ہیں یہ خواب
مجھے بانہوں کے حلقے میں جکڑ کر
مرے سر کی قسم کھاتے ہیں یہ خواب
مرا آغوش اپنانے کی خاطر
زمانے بھر کو ٹھکراتے ہیں یہ خواب
شفق پر روکتے ہیں اپنا آنچل
اُفق میں جا کے چھپ جاتے ہیں یہ خواب
جہاں کچھ بھی نہیں تنہا خلا ہے
نظر کا سارا سرمایہ خلا ہے