درختِ زرد

درختِ زرد
نہیں معلوم زریوں اب تمہاری عمر کیا ہوگی
وہ کن خوابوں سے جانے آشنا، نہ آشنا ہوگی
تمہارے دل کے اس دنیا سے کیسے سلسلے ہوں گے
تمہیں کیسے گماں ہوں گے، تمہیں کیسے گلے ہوں گے
تمہاری صبح جانے کن خیالوں سے نہاتی ہو
تمہاری شام جانے کن ملالوں سے نبھاتی ہو
نہ جانے کون دوشیزہ تمہاری زندگی ہوگی
نہ جانے اس کی کیا بایستگی شایستگی ہوگی
اسے تم فون کرتے اور خط لکھتے رہے ہو گے
نہ جانے تم نے کتنی کم غلط اُردو لکھی ہوگی
یہ خط لکھنا تو دقیانوس کی پیڑھی کا قصہ ہے
یہ صنفِ نثر ہم نابالغوں کے فن کا حصہ ہے
وہ ہنستی ہو تو شاید تم نہ رہ پاتے ہو حالوں میں
گڑھا ننھا سا پڑ جاتا ہو شاید اس کے گالوں میں
گماں یہ ہے، تمہاری بے رسائی نہ رسائی ہو
وہ آتی ہو تمہارے پاس لیکن آ نہ پائی ہو
وہ دوشیزہ بھی شاید داستانوں کی ہو دل دادہ
اسے معلوم ہوگا زال تھا سہراب کا دادا
تہمتن یعنی رستم تھا گرامی سام کا وارث
گرامی سام تھا صُلبِ نریمانی کا خوش زادہ
(یہ میری ایک خواہش ہے جو مشکل ہے)
وہ نجمِ آفندیِ مرحوم کو تو جانتی ہوگی
وہ نوحوں کے ادب کا طرز تو پہچانتی ہوگی
اسے کد ہوگی شاید اُن سبھی سے جو لپاڑی ہوں
نہ ہوں گے خواب اس کا جو گویے اور کھلاڑی ہوں
ہَدَف ہوں گے تمہارا کون، تم کس کے ہدف ہو گے
نہ جانے وقت کی پیکار میں تم کس طرف ہو گے
ہے رَن یہ زندگی، اِک رَن جو برپا لمحہ لمحہ ہے
ہمیں اس رَن میں، جو بھی ہو، کسی جانب تو ہونا ہے
سو، ہم بھی اس نفس تک ہیں سپاہی ایک لشکر کے
ہزاروں سال سے جیتے چلے آئے ہیں مَر مَر کے
شہود ایک فن ہے اور میری عداوت بے فنوں سے ہے
میری پیکار ازل سے سب تناسب دشمنوں سے ہے
بہار آقائے بابل ہے دو آبہ بیچتا کیا ہے
یہ خسرو، میر، غالب کا خرابہ بیچتا کیا ہے
ہمارا غالبِ اعظم تھا چور آقائے بیدلؔ کا
سو رزقِ فخر اب ہم کھا رہے ہیں میرِ بسمل کا
سِدھارت بھی تھا شرمندہ کہ دو آبے کا باسی تھا
قسم احساس کی وہ تو گیا سے التماسی تھا
تمہیں معلوم ہے اُردو جو ہے پالی سے نکلی ہے
وہ گویا اس کی ہی اک پُرنمو ڈالی سے نکلی ہے
یہ کڑواہٹ کی باتیں ہیں، مٹھاس ان کی نہ پوچھو تم
نمِ لب کو ترستی ہیں، سو، پیاس ان کی نہ پوچھو تم
یہ اِک دو جُرعوں کی اک چُہل ہے اور چُہل میں کیا ہے
عوام النّاس سے پوچھو، بھلا الکحل میں کیا ہے
یہ طعن و طنز کی ہرزہ سرائی ہو نہیں سکتی
کہ میری جان میرے دل سے رشتہ کھو نہیں سکتی
نشہ چڑھنے لگا ہے اور چڑھنا چاہیے بھی تھا
عبث کا نرخ تو اس وقت بڑھنا چاہیے بھی تھا
عجب بے ماجرا، بے طور، بیزارانہ حالت ہے
وجود اک وہم ہے اور وہم ہی شاید حقیقت ہے
غرض جو حال تھا وہ نفس کے بازار ہی کا تھا
ہے “ز” بازار میں تو دمیاں، زریون میں اول
تو یہ عبرا فنیقی کھیلتے حرفوں سے تھے ہر پل
تو یہ زریون جو ہے، کیا یہ افلاطون ہے کوئی؟
اماں زریون ہے زریون، وہ معجون کیوں ہوتا
ہیں معجونیں مفید “ارواح” کو، معجون یوں ہوتا
سنو! تفریق کیسے ہو بھلا اشخاص و اشیا میں
بہت جنجال ہیں پر ہو یہاں تو “یا” میں اور “یا” میں
تمہاری جو حماسہ ہے، بھلا اس کا تو کیا کہنا
ہے شاید مجھ کو ساری عمر اس کے سحر میں رہنا
مگر میرے غریب اجداد نے بھی کچھ کیا ہو گا
بہت ٹچا سہی، ان کا بھی کوئی ماجرا ہو گا
یہ ہم جو ہیں، ہماری بھی تو ہو گی کوئی نوٹنکی
ہمارا خون بھی سچ مچ کا صحنے پر بہا ہوگا
ہے آخر زندگی خون از بن ناخن آور تر
قیامت سانحہ مطلب فاجعہ پرور
نہیں ہو تم مرے مرا فردا نہیں میرا
سو، میں نے ساحت دیروز میں ڈالا ہے اب ڈیرا
مرے دیروز میں زہر ہلاہل تیغ قاتل ہے
مرے گھر کا وہی سرنام تر ہے جو بھی بسمل ہے
گذشت وقت سے پیمان ہے اپنا عجب سا کچھ
سو، اک معمول ہے عمران کے گھر کا عجب سا کچھ
حسن نامی ہمارے گھر میں اک سقراط گزرا ہے
وہ اپنی نفی سے اثبات تک معشر کے پہنچا ہے
کہ خون رایگاں کے امر میں پڑنا نہیں ہم کو
وہ سود حال سے یک سرزیاں کارانہ گزرا ہے
طلب تھی خون کی قے کی اسے اور بے نہایت تھی
سو، فوراً بنت اشعت کا پلایا پی گیا ہو گا
وہ اک لمحے کے اندر سرمدیت جی گیا ہوگا
تمہاری ارجمند امی کو میں بھولا بہت دن میں
میں ا کی رنگ کی تسکین سے نمٹا بہت دن میں
وہی تو ہیں، جنہوں نے مجھ کو پیہم رنگ تھکوایا
وہ کس رگ کا لہو ہے جو میاں میں نے نہیں تھوکا
لہو اور تھوکنا اس کا، ہے کاروبار بھی میرا
یہی ہے ساکھ بھی میری، یہی معیار بھی میرا
میں وہ ہوں جس نے اپنے خون سے موسم کھلائے ہیں
نجانے وقت کے کتنے ہی عالم آزمائے ہیں
میں اک تاریخ ہوں اور میری جانے کتنی فصلیں ہیں
مری کتنی ہی فرعیں ہیں، مری کتنی ہی اصلیں ہیں
حوادث ماجرا ہی ہم رہے ہیں اک زمانے سے
شداید سانحہ ہی ہم رہے ہیں اک زمانے سے
ہمیشہ سے بپا اک جنگ ہے، ہم اس میں قائم ہیں
ہماری جنگ خیر و شر کے بستر کی ہے زائیدہ
یہ شرخ جبر کے ادوار ممکن کی ہے گرویدہ
لڑائی کے لئے میدان اور لشکر نہیں لازم
سنان و گرز و شمشیر و تبر، خنجر نہیں لازم
بس اک احساس لازم ہے کہ ہم بعدین ہیں دونوں
کہ نفی رین رین و سر بہ سر ضدین ہیں دونوں
Luis Urbhna نے میری عجب کچھ غم گساری کی
بصد دل دانشی گزران اپنی مجھ پہ طاری کی
بہت اس نے پلائی اور پینے ہی نہ دی مجھ کو
پلک تک اس نے مرنے کے لیے جینے نہ دی مجھ کو
“میں تیرے عشق میں رنجیدہ ہوں ، ہاں اب بھی کچھ کچھ ہوں
مجھے تیری خیانت نے غضب مجروح کر ڈالا
مگر طیش شدیدانہ کے بعد آخر زمانے میں
رضا کی جاودانہ جبر کی نوبت بھی آ پہنچی
محبت ایک پسپائی ہے پر احوال حالت کی
سخن مال محبت کی دکاں آرائی کرتا ہے
سخن سو طرح سے اک رمز کی رسوائی کرتا ہے
سخن سو طرح سے اک رمز کی رسوائی کرتا ہے
سخن بکواس ہے بکواس جو ٹھیرا ہے فن میرا
وہ ہے تعبیر کا افلاس جو ٹھیرا ہے فن میرا
سخن یعنی لبوں کا فن، سخن ور یعنی اک پر فن
سخن ور ایزد اچھا تھا کہ آدم یا پھر اہریمن
سخن یعنی لبوں کا فن مگر ایزد کے لب یعنی!
مزید آں کہ سخن میں وقت ہے، وقت اب سے اب ، یعنی
کچھ ایسا ہے، یہ میں جو ہوں، یہ میں اپنے سواہوں “میں”
جو ہونے میں ہو، وہ ہر لمحہ اپنا غیر ہوتا ہے
کہ ہونے کو تو ہونے سے عجب کچھ بیر ہوتا ہے
یوں ہی، بس یوں ہی زینو نے یکایک خودکشی کر لی
عجب حس ظرافت کے تھے مالک یہ رواتی بھی
بدہ یارا ازاں بادہ کہ “دہقان پرورد” آں را
بہ سوزد ہر متاع انتمائے دود ماناں را
بہ سوزد ایں زمین و اوتبار و آسماناں را
یہ سوزد جان و دل راہم بیا ساید دل و جاں را
دل و جان اور آسایش یہ اک کوئی تمسخر ہے
غمق کی عبقریت ہے، سفاہت کا تفکر ہے
حمق کی عبقریت اور سفاہت کے تفکر نے
ہمیں تصنیع مہلے کے لیے اکوان بخشے ہیں
اور افلاطون اقدس نے ہمیں اعیان بخشے ہیں
سنو زریون تم تو عین اعیان حقیقت ہو
نظر سے دور منظر کا سرو سامان ثروت ہو
ہماری عمر کا قصہ حساب اندوز آنی ہے
زمانی زد میں ظن کی اک گمان لازمانی ہے
گماں یہ ہے کہ باقی ہے، بقاہر آن فانی ہے
کہانی سننے والے جو بھی ہیں وہ خود کہانی ہیں
کہانی کہنے والا اک کہانی کی کہانی ہے
پیاپے یہ گزارش ، یہ گماں اور یہ گلے کیسے
صلہ سوزی تو میرا فن ہے، پھر اس کے صلے کیسے
تو میں کیا کہہ رہا تھا، یعنی کیا کچھ سہہ رہا تھا میں
اماں، ہاں، میز پر یا میز پر سے بہہ رہا تھا میں
رکو، میں بے سروپا اپنے سر سے بھاگ نکلا ہوں
مرا “میں” لاگ میں تھا، اس سے میں بے لاگ نکلا ہوں
الا یا ایھا الا بجد! ذرا یعنی، ذرا ٹھیرو
There is an absurd I in absurdity Shaayad
کہیں اپنے سوا، یعنی کہیں اپنے سوا ٹھیرو
تم اس Absurdity میں اک ردیف، اک قافیہ ٹھیرو
ردیف و قافیہ کیا ہیں، شکستِ نارَوا کیا ہے
’’شکستِ ناروا‘‘ نے مجھ کو پارہ پارہ کر ڈالا
اَنا کو میری بے اندازہ تر بے چارہ کر ڈالا
میں اپنے آپ میں ہارا ہوں اور خوارانہ ہارا ہوں
جگر چاکانہ ہارا ہوں، دل افگارانہ ہارا ہوں
جسے فن کہتے آئے ہیں وہ ہے خُونِ جگر اپنا
مگر خونِ جگر کیا ہے، وہ ہے قتال تر اپنا
کوئی خونِ جگر کا فن ذرا تعبیر میں لائے
مگر میں تو کہوں، وہ پہلے میرے سامنے آئے
وجود و شعر دونوں ڈیفائن ہو نہیں سکتے
کبھی مفہوم میں ہرگز یہ کائن ہون ہیں سکتے
حسابِ حرف میں آتا رہا ہے بس حَسَب ان کا
میاں اک حال ہے، اک حال جو بے حالِ حالت ہے
نہ جانے جبر ہے حالت کہ حالت جبر ہے، یعنی
کسی بھی بات کے معنی جو ہیں اُن کے ہیں کیا معنی
وجود اک جبر ہے میرا، عدم اوقات ہے میری
جو میری ذات ہرگز بھی نہیں، وہ ذات ہے میری
میں روز و شبِ نگارش کوش خود اپنے عدم کا ہوں
میں اپنا آدمی ہرگز نہیں، لوح و قلم کا ہوں
ہیں کڑواہٹ میں یہ بھیگے ہوئے لمحے عجب سے کچھ
سراسر بے حسابانہ، سراسر بے سبب سے کچھ
شرابوں نے معابد کے تموز و بعل نہلائے
نہ جانے عاربہ کیوں آئے، کیوں مستعربہ آئے
مضر کے لوگ تو چھانے ہی والے تھے سو وہ چھائے
مرے جد ہاشم اعلیٰ گئے غزہ میں دفنائے
میں ناقے کو پلاؤں گا، مجھے وہاں تک وہ لے جائے
“لدو اللموت و ابنوا للحزاب” سب خراباتی
وہ مرد وعوص کہتا ہے، حقیقت ہے خرافاتی
یہ ظالم تیسرا پیگ اک اقانیمی ہدایت ہے
الوہی ہرزہ فرمائی کا سر طور لکنت ہے
بھلا حورب کی جھاڑی کا وہ رمز آتشیں کیا تھا
مگر حورب کی جھاڑی کیا، یہ کس سے کس کی نسبت ہے
پہ نسبت کے بہت سے قافیے ہیں، ہے گلہ اس کا
مگر تجھ کو تو یارا! قافیوں کی بے طرح لت ہے
گماں یہ ہے کہ شاید بحر سے حارج نہیں ہوں میں
ذرا بھی حال کے آہنگ میں حارج نہیں ہوں میں
تنا تن تن، تنا تن تن، تنا تن تن، تنا تن تن
تنا تن تن، نہیں محنت کشوں کا تن، نہ پیراہن
نہ پیراہن، نہ پوری آدگی روٹی اب رہا سالن
یہ سالے کچھ بھی کھانے کو نہ پائیں، گالیاں کھائیں
ہے ان کی بے حسی میں تو مقدس تر حرامی پن
مگر آہنگ میرا گھو گیا شاید کہاں جانے
کوئی موج، کوئی موج شمال جاوداں جانے
شمال جاوداں کے اپنے ہی قصے تھے جو گزرے
وہ ہو گزرے تو پھر خود میں نے بھی جانا ، وہ ہو گزرے
شمال جاوداں اپنا، شمال جاوداں جاں
ہے اب بھی اپنی پونجی اک ملال جاوداں جاں
نہیں معلوم زریون، اب تمہاری عمر کیا ہوگی
یہی ہے دل کا مضمون، اب تمھاری عمر کیا ہوگی
ہمارے درمیاں اب ایک بے جا تر زمانہ ہے
لبِ تشنہ پہ اک زہرِ حقیقت کا فسانہ ہے
عجب فرصت میسر آئی ہے ’’دل جان رشتے‘‘ کو
نہ دل کو آزمانا ہے، نہ جان کو آزمانا ہے
کلیدِ کِشت زارِ خواب بھی گم ہو گئی آخر
کہاں اب جادۂ خرّم میں سرسبزانہ ہے
کہوں تو کیا کہوں میرا یہ زخمِ جاودانہ ہے
وہی دل کی حقیقت جو کبھی جاں تھی، وہ اب آخر
فسانہ در فسانہ در فسانہ در فسانہ ہے
ہمارا باہمی رشتہ جو حاصل تر تھا رشتوں کا
ہمارا طَورِ بے زاری بھی کتنا والہانہ ہے
کسی کا نام لکھا ہے مری ساری بیاضوں پر
میں ہمت کر رہا ہوں، یعنی اب اس کو مٹانا ہے
ہنسی آتی ہے اب وہ کس قدر نا واجبانہ ہے
یہ اِک شامِ عذابِ بے سروکارانہ حالت ہے
ہوئے جانے کی حالت میں ہوں ، بس فرصت ہی فرصت ہے
تمہیں معلوم تم اس وقت کس معلوم میں ہو گے
نہ جانے کون سے معنی میں، کس مفہوم میں ہو گے
میں تھا مفہوم، نامفہوم میں گم ہو چکا ہوں
میں تھا معلوم، نامعلوم میں گم ہو چکا ہوں
نہیں معلوم زریون اب تمہاری عمر کیا ہوگی
مرے خود سے گذرنے کے زمانے سے سوا ہوگی
مرے قامت سے اب قامت تمہارا فزوں ہوگا
مرا ’’فردا‘‘ مرے دیروز سے بھی خوش نموں ہوگا
حسابِ ماہ و سال اب تک کبھی رکھا نہیں میں نے
کسی بھی فصل کا اب تک مزہ چکھا نہیں میں نے
میں اپنے آپ میں کب رہ سکا، کب رہ سکا آخر
کبھی اِک پل کو بھی اپنے لیے سوچا نہیں میں نے
حسابِ ماہ و سال و روز و شب، وہ سوختہ بُودش
مسلسل جاں کنی کے حال میں رکھتا بھی تو کیسے
جسے یہ بھی نہ ہو معلوم وہ ہے بھی تو کیوں کر ہے
کوئی حالت دلِ پامال میں رکھتا بھی تو کیسے
کوئی نسبت بھی اب تو ذات سے باہر نہیں میری
کوئی بستر نہیں میرا، کوئی چادر نہیں میری
بہ حالِ ناشِتا صد زخم ہا و خون ہا خوردم
بہ ہر دم شوکراں آمیختہ معجون ہا خوردم
تمہیں اس بات سے مطلب ہی کیا اور آخرش کیوں ہو
کسی سے بھی نہیں مجھ کو گِلہ اور آخرش کیوں ہو
جو ہے اک ننگِ ہستی اس کو تم کیا جان بھی لو گے
اگر تم دیکھ لو مجھ کو تو کیا پہچان بھی لو گے
تمہیں مجھ سے جو نفرت ہے، وہی تو میری راحت ہے
مری جو بھی اذیّت ہے، وہی تو میری لذت ہے
کہ آخر اس جہاں کا اک نظامِ کار ہے آخر
جزا کا اور سزا کا کوئی تو ہنجار ہے آخر
میں خود میں جھینکتا ہوں اور سینے میں بھڑکتا ہوں
مرے اندر جو ہے اک شخص، میں اس میں پھڑکتا ہوں
ہے میری زندگی اب روز و شب یک مجلسِ غم ہا
عزاہا، مرثیہ ہا، گریہ ہا، آشوبِ ماتم ہا
تمہاری تربیت میں میرا حصہ کم رہا، کم تر
زباں میری تمہارے واسطے شاید کہ مشکل ہو
زباں، اپنی زباں میں تم کو آخر کب سکھا پایا
عذابِ صدشماتت آخرش مجھ پر ہی نازل ہو
زباں کا کام یوں بھی بات سمجھانا نہیں ہوتا
سمجھ میں کوئی بھی مطلب کبھی آنا نہیں ہوتا
کبھی خود تک بھی مطلب کوئی پہچانا نہیں ہوتا
گمانوں کے گماں کی دم بہ دم آشوب کاری ہے
بھلا کیا اعتباری اور کیا نااعتباری ہے
گماں یہ ہے، بھلا میں جُز گماں کیا تھا گمانوں میں
سخن ہی کیا فسانوں کا، دھرا کیا ہے فسانوں میں
مرا کیا تذکرہ اور واقعی کیا تذکرہ میرا
میں اِک افسوس ہوں، افسوس تھا گذرے زمانوں میں
ہے شاید دل مرا بے زخم اور لب پر نیں چھالے
مرے سینے میں کب سوزندہ تر داغوں کے ہیں تھالے
مگر دوزخ پگھل جائے جو میرے سانس اپنالے
تم اپنی مام کے بے حد مرادی مَنتوں والے
مرے کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں، بالے
مگر پہلے کبھی تم سے مرا کچھ سلسلہ تو تھا
گماں میں میرے شاید اک کوئی غنچہ کِھلا تو تھا
وہ میری جاودانہ بے دُوئی کا اک صلہ تو تھا
سو، اس کو ایک ’’اَبوّ‘‘ نام کا گھوڑا ملا تو تھا
نہیں معلوم مجھ کو عام شہری کیسے ہوتے ہیں
وہ کیسے اپنا بنجر نام بنجر پن میں بوتے ہیں
میں اُر سے آج تک اِک عام شہری ہو نہیں پایا
اسی باعث میں ہوں انبوہ کی لذت سے بے مایہ
مگر تم اک دو پایہ راست قامت ہو کے دکھلانا
سنو رائے دہندہ بِن ہوئے تم باز مت آنا
فقط زریون ہو تم، یعنی اپنا سابقہ چھوڑو
فقط زریون ہو تم، یعنی اپنا لاحقہ چھوڑو
مگر میں کون جو چاہوں تمہارے باب میں کچھ بھی
بھلا کیوں ہو مرے احساس کے اسباب میں کچھ بھی
تمہارا باپ، یعنی میں، عبث مَیں، اک عبث تَر میں؟
میں مَیں یعنی جانے کون؟ اچھا میں، سراسر میں!
میں اک کاسد ہوں، کاذب ہوں، میں کیّاد و کمینہ ہوں
میں کاسہ باز و کینہ ساز ہو کاسہ تن ہوں، کتّا ہوں
میں اک ننگینِ بُودش ہوں، پہ تم تو سرّ منعَم ہو
تمہارا باپ روح القدس تھا؛ تم ابنِ مریم ہو
میں اپنے شہرِ علم و فن کا تھا اک نوجواں کاہِن
مرے تلمیذِ علم و فن مرے بابا کے تھے ہم سن
مرا بابا مجھے خاموش آوازیں سناتا تھا
وہ اپنے آپ میں گم مجھ کو پرُ حالی سکھاتا تھا
وہ ہیٔت داں، وہ عالم، نافِ شب میں چھت پہ جاتا تھا
رَصَد کا رشتہ سیاروں سے رکھتا تھا، نبھاتا تھا
اسے خواہش تھی شہرت کی نہ کوئی حرصِ دولت تھی
مری ماں کی تمناؤں کا قاتل تھا وہ قلاّمہ
مری ماں، میری محبوبہ، قیامت کی حسینہ تھی
ستم یہ ہے، یہ کہنے سے جھجکتا تھا وہ فہّامہ
تھا بے حد اشتعال انگیز بد قسمت وہ علامہ
خَلَف اُس کے خزف اور بے نہایت نا خَلَف نکلے
ہم اس کے سارے بیٹے انتہائی بے شَرَف نکلے
میں اس عالم ترینِ دہر کی فکرت کا منکر تھا
میں سو فسطائی تھا، جاہل تھا اور منطق کا ماہر تھا
پر اب میری یہ شہرت ہے کہ میں بس اک شرابی ہوں
میں اپنے دُودمانِ علم کی خانہ بربادی ہوں
سایہ دامان رحمت چاہیے تھوڑا مجھے
میں نہ چھوڑوں یا نبی، تم نے اگر چھوڑا مجھے
عید کے دن مصطفیٰ سے یوں لگے کہنے حسین
سبز جوڑا دو حسن کو سرخ دو جوڑا مجھے”
“ادب ادب کتے، ترے کان کاٹوں
زریون کے بیاہ کے نان باٹوں”
تاروں بھرے جگر جگر خوان باٹوں
“آ جا ری نندیا تو آ کیوں نہ جا
زریوں کو آ کے سلا کیوں نہ جا”
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *