وہ بچھڑا اور دھیان میں اس کے سو موسم ایجاد ہوئے
ناموری کی بات دگر ہے ورنہ یارو سوچو تو
گلگوں اب تک کتنے تیشے بے خونِ فرہاد ہوئے
لائیں کہاں سے بول رسیلے ہونٹوں کی ناداری میں
سمجھو ایک زمانہ گزرا بوسوں کی امداد ہوئے
تم میری اک خود مستی ہو میں ہوں تمہاری خود بینی
رشتے میں اس عشق کے ہم تم دونوں بے بنیاد ہوئے
میرا کیا اک موجِ ہوا ہوں پر یوں ہے اے غنچہ دہن
تُو نے دل کا باغ جو چھوڑا غنچے بے استاد ہوئے
عشق محلے میں اب یارو کیا کوئی معشوق نہیں
کتنے قاتل موسم گزرے شور ہوئے فریاد ہوئے
ہم نے دل کو مار رکھا ہے اور جتاتے پھرتے ہیں
ہم دل زخمی مژگاں خونیں ہم نہ ہوئے جلاد ہوئے
برق کیا ہے عکسِ بدن نے تیرے ہمیں اے تنگ قبا
تیرے بدن پر جتنے تِل ہیں سارے ہم کو یاد ہوئے
تُو نے کبھی سوچا تو ہو گا، سوچا بھی اے مست ادا
تیری ادا کی آبادی پر کتنے گھر برباد ہوئے
جو کچھ بھی رودادِ سخن تھی ہونٹوں کی دُوری سے تھی
جب ہونٹوں سے ہونٹ ملے تو یکدم بے رُوداد ہوئے
خاک نشینوں سے کوچے کے کیا کیا نخوت کرتے ہیں
جاناں جان! ترے درباں تو فرعون و شدّاد ہوئے
شہروں میں ہی خاک اُڑا لو شور مچا لو بے حالو
جن دَشتوں کی سوچ رہے ہو وہ کب کے برباد ہوئے
سمتوں میں بکھری وہ خلوت، وہ دل کی رنگ آبادی
یعنی وہ جو بام و دَر تھے یکسر گرد و باد ہوئے
تُو نے رندوں کا حق مارا مے خانے میں رات گئے
شیخ!! کھرے سیّد ہیں ہم تو ہم نے سُنا ناشاد ہوئے
جون ایلیا