سب گھروندے بکھرتے جاتے ہیں
محملِ صبحِ نو کب آئے گی
کتنے ہی دن گزرتے جاتے ہیں
مسکراتے ضرور ہیں لیکن
زیرِ لب آہ بھرتے جاتے ہیں
تھی کبھی کوہ کن مری شیریں
اب تو آداب برتے جاتے ہیں
بڑھتا جاتا ہے کاروانِ حیات
ہم اُسے یاد کرتے جاتے ہیں
شہر آباد کر کے شہر کے لوگ
اپنے اندر بکھرتے جاتے ہیں
روز افزوں ہے زندگی کا جمال
آدمی ہیں کہ مرتے جاتے ہیں
جونؔ یہ زخم کتنا کاری ہے
یعنی کچھ زخم بھرتے جاتے ہیں