دل میں کم کم ملال تو رکھیے

دل میں کم کم ملال تو رکھیے
نسبتِ ماہ و سال تو رکھیے
آپ کو اپنی تمکنت کی قسم
کچھ لحاظِ جمال تو رکھیے
صبر تو آنے دیجیے دل کو
اپنا پانا محال تو رکھیے
رہے جاناں کی یاد تو دل میں
دشت میں اِک غزال تو رکھیے
آپ اپنی گلی کے سائل کو
کم سے کم پر سوال تو رکھیے
جانے مجھ سے یہ کون کہتا ہے
آپ اپنا خیال تو رکھیے
تیغ تو جونؔ پھینک دیجیے مگر
ہاتھ میں اپنے ڈھال تو رکھیے
ڈھونڈ کر لائیے کہیں سے ہمیں
اپنی کوئی مثال تو رکھیے
حالتِ فرقتِ ہمیشہ میں
درمیاں کوئی حال تو رکھیے
آج دو لمحہ اپنی بانہوں کو
میری بانہوں میں ڈال تو رکھیے
ایک ناسور لے کے آیا ہوں
خواہشِ اندمال تو رکھیے
ایک شے احترامِ علم بھی ہے
اس کا کچھ کچھ خیال تو رکھیے
ڈھونڈ کر لائیے کہیں سے ہمیں
اپنی کوئی مثال تو رکھیے
ہے نگاہِ ہَوَس مِری حاضر
اپنے گالوں کو لال تو رکھیے
ناف پیالہ نہ آپ چھلکائیں
اس کو ہم پر حلال تو رکھیے
ہے وہ ناپید، ہو مگر خود میں
طورِ ہجر و وِصال تو رکھیے
جونؔ بے حال تو ہو لیکن آپ
حالتِ حالِ حال تو رکھیے
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *