دل نے جاناں کو جو شب نامہِ ہجراں لکھا

دل نے جاناں کو جو شب نامہِ ہجراں لکھا
اشکِ خونیں کا چراغاں، سرِ مژگاں لکھا
اے ہوس! میں نے تری بے سروسامانی میں
اک عجب دُکھ سے اُسے ، بے سروساماں لکھا
ہم عجب شعبدہ گر ہیں ، بندھے ہاتھوں ہم نے
اس کی بانہوں سے مُلاقات کا ارماں لکھا
میں جنوں میں بھی زباں سے کبھی غافل نہ رہا
ہاتھ کو ہاتھ ، گریباں گو گریباں لکھا
ہائے ! وہ حال کہ جب جان سے جاتے ہوئے بھی
اپنے ہی آپ کو مجھ شخص نے جاناں لکھا
زُلف کو اُس کی بھلا مجھ سے شکایت کیوں ہے
جو پریشاں تھا اُسے میں نے پریشاں لکھا
جب سُنا میں نے کہ ہے میرا خالق بھی محال
اس کے نام ایک ہوس نامہء امکاں لکھا
تُو پسند آئی نہیں ہم گو مگر اس پر بھی
زندگی ! ہم نے تجھے گیسوئے پیچاں لکھا
ہم نے اے عالمِ خاموشیِ جاویدِ نبود
بُود کو تیری سماعت میں غزل خواں لکھا
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *