دل ہے بسمل، پڑا تڑپتا ہے

دل ہے بسمل، پڑا تڑپتا ہے
اپنا قاتل پڑا تڑپتا ہے
اک مقابل طلب سرِ میداں
بے مقابل پڑا تڑپتا ہے
وہ طلب میں ہے جس کے محملِ رنگ
پسِ محمل پڑا تڑپتا ہے
راہِ منزل میں تھا جو رقص کُناں
سرِ منزل پڑا تڑپتا ہے
بس تڑپنے کی تھی ہَوَس جس کو
اب بہ مشکل پڑا تڑپتا ہے
کچھ تو احساس کر کہ تیرے حُضور
کیسا قابل پڑا تڑپتا ہے
میرِ محفل کا طور ہے بے طور
بیچ محفل پڑا تڑپتا ہے
اِک نفس ہے کہ دو نفس کے بیچ
ہو کے حائل پڑا تڑپتا ہے
نہ تو کوئی وصال ہے، نہ فراق
بس میاں، دل پڑا تڑپتا ہے
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *