جانا ہے اس دیار سے منظر سمیٹ لو
آزادگی میں شرط بھی ہے احتیاط کی
پرواز کا ہے ازن مگر پر سمیٹ لو
حملہ ہے چار سو در ودیوار شہر کا
سب جنگلوں کو شہر کے اندر سمیٹ لو
بکھرا ہوا ہوں صرصر شام فراق سے
اب آ بھی جاؤ اور مجھے آ کر سمیٹ لو
رکھتا نہیں ہے کوئی نگفتہ کا یاں حساب
جو کچھ ہے دل میں اسکو لبوں پر سمیٹ لو
جون ایلیا