دھوپ اٹھاتا ہوں کہ اب سر پہ کوئی بار نہیں

دھوپ اٹھاتا ہوں کہ اب سر پہ کوئی بار نہیں
بیچ دیوار ہے اور سایہِ دیوار نہیں
شہر کی گشت میں ہیں صبح سے سارے منصور
اب تو منصور وہی ہے جو سرِ دار نہیں
مت سنو مجھ سے جو آزار اٹھانے ہوں گے
اب کے آزار یہ پھیلا ہے کہ آزار نہیں
سوچتا ہوں کہ بھلا عمر کا حاصل کیا تھا
عمر بھر سانس لیے اور کوئی انبار نہیں
جن دکانوں نے لگائے تھے نگہ میں بازار
اب دکانوں کا یہ رونا ہے کہ بازار نہیں
اب وہ حالت ہے کہ تھک کر میں جدا ہو جاؤں
کوئی دلدار نہیں، کوئی دل آزار نہیں
مجھ سے تم کام نہ لو، کام میں لاؤ مجھ کو
کوئی تو شہر میں ایسا ہے کہ بیکار نہیں
یاد آشوب کا عالم تو وہ عالم ہے کہ اب
یاد مستوں کو تری یاد بھی درکار نہیں
وقت کو سود پہ دے اور نہ رکھ کوئی حساب
اب بھلا کیسا زیاں، کوئی خریدار نہیں
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *