پہلی آواز :
ہمارے سرکار کہہ رہے تھے یہ لوگ پاگل نہیں تو کیا ہیں
کہ فرقِ افلاس و زر مٹا کر نظامِ فطرت سے لڑ رہے ہیں
نظامِ دولت خدا کی نعمت،خدا کی نعمت سے لڑرہے ہیں
ہر اک روایت سے لڑ رہے ہیں،ہراک صداقت سے لڑرہے ہیں
مشّیتِ حق سے ہو کےغافل خود اپنی قسمت سےلڑرہےہیں
یہ لوگ پاگل نہیں تو کیا ہیں؟
ہمارے سرکار کہہ رہے تھے اگر سبھی مالدار ہوتے
تو پھر زلیل و حقیر پیشے ہر ایک کو ناگوار ہوتے
نہ کارخانوں میں کام ہوتا نہ لوگ مصروفِ کار ہوتے
انھی سے پوچھو کہ پھرزمانےمیں کس طرح کاروبار ہوتے
اگر سبھی مالدار ہوتے
تو مسجد و مندر و کلیسا میں کون صنعت گری دکھاتا
ہمارے راجوں کی اور شاہوں کی عظمتیں کون پھر جگاتا
حسین تاج اور جلیل اہرام ڈھال کر کون داد پاتا
ہماری تاریخ کو فروغِ ہنر سے پھر کون جگمگاتا
ہمارے سرکار کہہ رہے تھے،یہ لوگ پاگل نہیں تو کیا ہیں؟
دوسری آواز:
تم اپنی سرکار سے یہ کہنا یہ لوگ پاگل نہیں ہوئے ہیں
یہ لوگ سب کچھ سمجھ رہے ہیں یہ لوگ سب کچھ سمجھ چکے ہیں
یہ زرد رو نوجوان فنکار جن کی رگ رگ میں ولولے ہیں
یہ ناتوان و نحیف و ناچار جن کے قدموں میں زلزلے ہیں
یہ جن کو تم نے کچل دیا ہےیہ جن میں جینے کے حوصلے ہیں
دیا ہے فاقوں نے جنم جن کو جو بھوک کی گود میں پلے ہیں
یہ لوگ پاگل نہیں ہوئے ہیں
نظامِ فطرت؟
نظامِ فطرت ہوائےصحنِ چمن سے پوچھو جو پوچھنا ہے
مشامِ دیَر و دیار و دشت و دمن سے پوچھو جو پوچھنا ہے
نظامِ فطرت فضاوٴں کی انجمن سے پوچھو جو پوچھنا ہے
نظامِ فطرت کو قلزمِ موجزن سے پوچھو جو پوچھنا ہے
کہ چاند سورج کی جگمگاہٹ زمیں زمیں ہے وطن وطن ہے
کلی کلی کی کنواری خوشبو روش روش ہے چمن چمن ہے
نظامِ فطرت کا بحرِ موّاج پست و بالا پہ موجزن ہے
ہوائیں کب اسکو دیکھتی ہیں کہ یہ ہے صحرا وہ انجمن ہے
وہ پیشے جن سے عروسِ تہزیب کو ملے ہیں لباس و زیور
ہے جن سے دوشیزہِ تمدن چمن بدامن بہار در بر
ہے جن کا احساں تمہاری اصلوں تمہاری نسلوں پہ اور تم پر
انھیں کو تم گالیاں بھی دیتے ہو اب زلیل و حقیر کہہ کر
سنو کہ فردوسیِ زمانہ پرکھ چکا ظرفِ غزنوی کو
جو فکر و فن کو زلیل کر کے عزیز رکھتا ہے اشرفی کو
تقدسِ بت شکن میں دیکھا تکلفِ ذوقِ بت گری کو
اب ایک ہجوِ جدید لکھنی ہے عصرِ حاضر کی شاعری کو
تم اپنے سرکار سے یہ پوچھو کہ فکر و فن کی سزا یہی ہے
ہو ان کا دل خون جن کے دم سےیہ تازگی ہے یہ دلکشی ہے
وہ جن کے خوں سے نقوش و اشکال کو درخشندگی ملی ہے
وہ جن کے ہاتھوں کی کھردراہٹ سے کشتِ تارِ حریر اگی ہے
تم اپنے سرکار سے یہ کہنا، نظامِ زر کے وظیفہ خوارو
نظامِ کہنہ کی ہڈیوں کے مجاورو اور فروش کارو
تمہاری خواہش کے بر خلاف اک نیا تمدن طلوع ہوگا
نیا فسانہ نیا ترانہ نیا زمانہ شروع ہو گا
جمود و جنبش کی رزم گاہوں میں ساعتِ جنگ آ چکی ہے
سماج کے استخواں فروشوں سے زندگی تنگ آ چکی ہے
تمہارے سرکار کہہ رہے تھے، یہ لوگ پاگل نہیں تو کیا ہیں
یہ لوگ جمہور کی صدا ہیں یہ لوگ دنیا کے رہنما ہیں
یہ لوگ پاگل نہیں ہوئے ہیں