وصل تھا ہجر یار کے مانند
ہم رمیدہ رہے غزالوں سے
آہوان تتار کے مانند
کر کے بسمل گیا ہے جو مجھ کو
ہے کٹیلا ، کٹار کے مانند
اس سے مل کر سدھارنا اپنا
تھی وہ حالت بخار کے مانند
اب میں اپنی تباہیوں کے بیچ
ہوں تری یادگار کے مانند
ہم تھے اے زلف تیرے افشا نگر
موج باد بہار کے مانند
مہلکے میں پڑی ہے جان مری
اس کا قامت ہے دار کے مانند
اے کف پا!یہ جی میں آتا ہے
تجھ میں چبھ جاؤں، خار کے مانند
ٹکٹکی باندھ دیکھتا ہے مجھے
قیس اک ہونہار کے مانند
بیٹھ جا راہ میں قرینے سے
یاد آئی ہے یار کے مانند
یاں اب اک انتشار ہے درکار
زلف کے انتشار کے مانند
سر بہ زانو ہے آسماں میں خدا
کسی بے اختیار کے مانند
جون ایلیا