دوئی

دوئی
بوئے خوش ہو، دمک رہی ہو تم
رنگ ہو اور مہک رہی ہو تم
بوئے خوش! خود کو رو برو تو کرو
رنگ! تم مجھ سے گفتگو تو کرو
وقت ہے لمحہ لمحہ مہجوری
چاہے تم میری ہم نشیں بھی ہو
ہے تمہاری مہک میں حزنِ خیال
جیسے تم ہو بھی اور نہیں بھی ہو
میرے سینے میں چُبھ رہا ہے وجود
اور دل میں سوال سا کچھ ہے
وقت مجھ کو نہ چھین لے مجھ سے
سرخوشی میں ملال سا کچھ ہے
میری جاں! ایک دوسرے کے لیے
جانے ہم ناگزیر ہیں کہ نہیں
تم جو ہو تم ہو! میں جو ہوں میں ہوں
دل ہوا ہے سکوں پذیر کہیں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *