دیکھنے چلو

دیکھنے چلو
وہ کہکشاں، وہ راہگزر ‘ دیکھنے چلو
جون اک عمر ہو گئ ‘ گھر دیکھنے چلو
رقصاں تھیں زندگی کی طرحداریاں جہاں
دنیائے شوق کا وہ کھنڈر دیکھنے چلو
تاریک ہو گئی ہے نظر عہدِ ہجر میں
خلدِ نظر کو ایک نظر دیکھنے چلو
شامِ کنارِ بان ہے اب بھی شفق نگار
رنگوں کا موج موج سفر دیکھنے چلو
اِک ڈھیر خاک کا ابھی موجود ہے وہاں
وہ طاق ‘ وہ رواق، وہ دَر، دیکھنے چلو
وہ خواب خواب شہر بلاتا ہے پھر تمہیں
پھر ایک بار خوابِ سحر دیکھنے چلو
سرکارِ فارہہ کی حریمِ تباہ کی
خونیں نواؤ، خاک بسر ‘ دیکھنے چلو
جس کے تراشنے میں وہ شیریں بھی تھی شریک
وہ اپنا بے ستونِ ہنر دیکھنے چلو
وہ رنگ کے مزار ‘ وہ نکہت کی تربتیں
ہے دیکھنا عذاب ‘ مگر ‘ دیکھنے چلو
جون! اُس شکستہ آئینہ خانے کے رُوبرو
آئینہ لے کے دیدہِ تر دیکھنے چلو
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *