ذات اپنی گواہ کی جائے

ذات اپنی گواہ کی جائے
بند آنکھوں نگاہ کی جائے
ہم تو بس اپنی چاہ میں ہیں مگن
کچھ تو اس کی بھی چاہ کی جائے
ایک ناٹک ہے زندگی جس میں
آہ کی جائے، واہ کی جائے
دل! ہے اس میں ترا بَھلا کہ تری
مملکت بے سپاہ کی جائے
ملکہ جو بھی اپنے دل کی نہ ہو
جونؔ ! وہ بے کلاہ کی جائے
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *