کاش! اک بار مر گئے ہوتے
مرہم یاس یاد ہی نہ رہا
اب تلک زخم بھر گئے ہوتے
اجتہاد ِ جنوں سے کیا پایا
سب جدھر تھے، اُدھر گئے ہوتے
غیر کے دل میں گر اُترنا تھا
میرے دل سے اُتر گئے ہوتے
پائے کُوہانِ فرشِ لالہ و گُل
بَر دمِ نیشتر گئے ہوتے
وقت پر رازداں نے زہر دیا
چارہ گر، کام کر گئے ہوتے
میرے وحشت کدے میں کیوں آئے
بلخ و کاشغر گئے ہوتے
بار بار اُس نے دی تھیں آوازیں
سوچتے میں بِسر گئے ہوتے
نہ ملا ہم کو وقت ِ شانہ کشی
کتنے گیسو سنور گئے ہوتے
جون ایلیا