اب تو غم بھی گنوائے جائیں گے
جانیے کس قدر بچے گا وہ
اس سے جب ہم گھٹائے جائیں گے
اس کو ہوگی بڑی پشیمانی
اب جو ہم آزمائے جائیں غے
کیا غرضؔ دَورِ جام سے ہم کو
ہم تو شیشے چبائیں جائیں گے
میری اُمید کو بجا کہہ کر
سب مرا دکھ بڑھائے جائیں گے
کم سے کم تجھ گلی میں جاناں
دُھوم تو ہم مچائے جائیں گے
زخم پہلے کے اب مفید نہیں
اب نئے زخم کھائے جائیں گے
شاخسارو! تمہارے سارے پرند
اک نَفَس میں اُڑائے جائیں گے
ہم جو اب تک کبھی نہ پائے گئے
کن زمانوں میں پائے جائیں گے
آگ سے کھیلنا ہے شوق اپنا
اب تیرے خط جلائے جائیں گے
جمع کیا ہے ہم نے غم دل میں
اس کا اب سود کھائے جائیں گے
شہر کی محفلوں میں ہم اور وہ
ساتھ اب کیوں بلائے جائیں گے
آگ سے کھیلنا ہے شوق اپنا
اب ترے خط جلائے جائیں گے
یہ نکمے تمہارے کوچے کے
جانے کیا کچھ کمائے جائیں گے
ہے ہماری رسائی اپنے میں
ہم خود اپنے میں آئے جائیں گے
ہم نہ ہو کر بھی شہرِ بودِش میں
آئے جائیں گے، جائے جائیں گے
مجھ سے کہتا تھا کل یہ شاہِ بلوط
سارے سایے جلائے جائیں گے
ہو گا جس دن فنا سے اپنا وصال
ہم نہایت سجائے جائیں گے
جونؔ یوں ہے کہ آج کے موسیٰ
آگ بس آگ لائے جائیں گے
جون ایلیا