لبِ دریا سراب بیچے ہیں
اور تو کیا تھا بیچنے کے لئے
اپنی آنکھوں کے خواب بیچے ہیں
خود سوال ان لبوں سے کر کےمیں
خود ہی ان کے جواب بیچے ہیں
زلف کوچوں میں شانہ کش نے تیرے
کتنے ہی پیچ و تاب بیچے ہیں
شہر میں ہم خراب حالوں نے
حال اپنے خراب بیچے ہیں
جانِ من تیری بے نقابی نے
آج کتنے نقاب بیچے ہیں
میری فریاد نے سکوت کے ساتھ
اپنے لب کے عذاب بیچے ہیں
جون ایلیا