سر گرداں

سر گرداں
(یوحنا کے نام)
میری محروم روح نے اب تک
نسل ہا نسل کا عذاب سہا
تھی وہ اک جانکنی کی تنہائی
جس میں صدیاں گزار دیں میں نے
جانکنی جس کا خار دار لباس
میری فطرت کی جامہ زیبی نے
بے پس و پیش اختیار کیا
اور پھر یوں پہن لیا جیسے
یہ مرا جسم ہے لباس نہیں
٭
تیرے غم نے پہن لیا ہے مجھے
اور میں تیرے پاس آیا ہوں
تو نے مجھ کو پہچانا۔۔۔؟
میں ہوں اس زندگی کا افسانہ
جو یہاں زخم کھانے آئی تھی
جس کی شہ رگ کو خون اگلنا تھا
جس کی پوشاک پوستین خشن
کم بہا تر تھی ان نیاموں سے
جو زیان و ضرر اگلتی ہیں
آدمی اور زندگی کے لیے
زندگی جو فقط محبت تھی
اور انہوں نے اسے نہ پہچانا
٭
تو نے مجھ کو پہچانا
تیری صدیوں نے مجھ کو ڈھونڈا ہے
اجنبی انتظار کی صدیاں
نادمیدہ بہار کی صدیاں
تو نے جن کی مشقتیں سہہ کر
بھری دنیا میں اجنبی رہ کر
ان نگاہوں کا انتظار کیا
جن کو اک بار بھی نہ دیکھا تھا
جن میں تیری خود آگہی کے لیے
اک تبسم تھا اور تبسم میں
وقت کا رمز اشک افشاں تھا
٭
وہ نگاہیں ترے دریچے کے
رو برو تجھ سے ملنے آئی ہیں
ان میں تیری خود آگہی کے لیے
اک تبسم ہے اور تبسم میں
وقت کا زمز اشک افشاں تھا
اس تبسم کا سر بو قلموں
وقت کے دیر گرد چروا ہے
شورہ بوموں سے سبزہ زاروں تک
سوچتے اور گاتے رہتے ہیں
اور اپنے میں بہہ رہا ہے وقت
وقت کا جبر سہہ رہا ہے وقت
آج جی بھر کے دیکھ لے مجھ کو
وقت سے ہیں بہت گلے تجھ کو
وقت تیری غریب تنہائی
وقت خوابوں کی آبلہ پائی
خواب، تو جن کو پا نہیں سکتی
خواب، جو تجھ کو پا نہیں سکتے
پر میں آنسو نہیں بہاؤں گا
سوچتا ہوں کہ یوں ترے دل میں
غم کا احساس بڑھ نہ جائے کہیں
غم سے بڑھتا ہے وقت کا احساس
٭
خواب تجھ سے وداع ہوتے ہیں
ان دریچوں کو بند کر لینا
میرے جانے کے بعد موج صبا
اور تجھ کو اداس کر دے گی
ان دریچوں کو بند کر لینا
آہ! بے رحم وقت کی دیمک
ان دریچوں کو چاٹ جائے گی
میری محروم روح نے۔۔۔۔۔
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *