شاخِ اُمید جل گئی ہو گی

شاخِ اُمید جل گئی ہو گی
دل کی حالت سنبھل گئی ہو گی
جونؔ! اس آن تک بخیر ہوں میں
ہوں میں زندگی داؤ چَل گئی ہو گی
اک جہنم ہے میرا سینہ بھی
آرزو کب کی گل گئی ہو گی
سوزش پرتو نگاہ نہ پوچھ
مردمک تو پگھل گئی ہو گی
ہم نے دیکھے تھے خواب شعلوں کے
نیند آنکھوں میں جَل گئی ہو گی
اس نے مایوس کر دیا ہوگا
پھانس دل سے نکل گئی ہو گی
اب تو دل ہی بدل گیا اب تو
ساری دنیا بدل گئی ہو گی
دل گلی میں رقیبِ دل کا جلوس
واں تو تلوار چَل گئی ہو گی
گھر سے جس روز میں چَلا ہوں گا
دل کی دِلیّ مَچل گئی ہوگی
دھوپ، یعنی کہ زرد زرد سی دھوپ
لال قلعے سے ڈھل گئی ہو گی
ہجر حدّت میں یاد کی خوشبو
ایک پنکھا سا جھل گئی ہو گی
آئی تھی موج سبز یاد شمال
یاد کی کی شاخ پھل گئی ہوگی
وہ دم صبح، غسل خانے میں
میرے پہلو سے، شل گئی ہو گی
شامِ صبحِ فراق دائم ہے
اب طبیعت بہل گئی ہو گی
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *