قصہء سوزِ جاں کہو، پُرسشِ آرزو کرو
نخوتیان شہر بھی، طعہ زناں ہیں دوبدو
نخوتیان شہر پر، طعن بھی دوبدو کرو
مست ہیں خواب عیش میں، عشترتیان نوش خواب
جادہ بہ جادہ کو بہ کو، شہر میں ہاؤ ہو کرو
نشہِ رنگ و بو سے تم، مست ہو اپنے آپ میں
ہم کو بھی اپنا رنگ دو، ہم کو بھی مشکبو کرو
کیسا لحاظ کس کا پاس، ہے یہ دیار ناشناس
جو بھی ہے رو برو کہو، جو بھی ہے رو برو کرو
یہ ہے خرابہِ نبود، یعنی خرابہِ وجود
زہر نفس نفس پیو، نشہ سبو سبو کرو
ایزو و اہرمن تو ہیں، لمحہ بہ لمحہ کینہ جُو
بود کی جیب میں ہے چاک، یار کوئی رفو کرو
پھینک دے اے حسین عصر! پھینک دے تیغ اور سپر
وقت نماز عصر ہے، خون سے تو وضو کرو
ڈھاؤ حرم کو بے تکان، آگ لگاؤ دیر میں
جون یہ کام ہے ترا، جون یہ کام تو کرو
جون ایلیا