شہرِ آشوب

شہرِ آشوب
گزر گئے پسِ در کی اشارتوں کے وہ دن
کہ رقص کرتے تھے مے خوار رنگ کھیلتے تھے
نہ محتسب کی تھی پروا نہ شہرِ دار کی تھی
ہم اہلِ دل سرِ بازار رنگ کھیلتے تھے
غرورِ جبہ و دستار کا زمانہ ہے
نشاطِ فکر و بساطِ ہنر ہوئی برباد
فقیہ و مفتی و واعظ پہ حرف گیر ہو کون؟
یہ ہیں ملائکہ اور شہر جنتِ شداد
ملازمانِ حرم نے وہ تنگیاں کی ہیں
فضائیں ہی نہ رہیں رقصِ رنگ و بو کے لیے
یہ انتظام تو دیکھو خزاں پرستوں کا
بچھائی جاتی ہیں سنگینیاں نمو کے لیے
اسی ہوس میں ہیں ہر دم یہ دشمنانِ جمال
جو سوئے رنگ اٹھے اس نظر کو گُل کر دیں
جو بس چلے کہیں ان کا تو یہ فضا بیزار
شفق کا رنگ بجھا دیں سحر کو گُل کر دیں
ہوئی ہے جانبِ محراب سے وہ بارشِ سنگ
کہ عافیت خمِ ابرو کی ہے بہت دشوار
ستم کیا ہے عجب منجنیقِ منبر نے
حریمِ دل کی سلامت نہیں رہی دیوار
یہ عہد وہ ہے کہ دانشورانِ عہد پہ بھی
منافقت کی شبیہوں کا خوف طاری ہے
نمازِ خوف کے دن ہیں کہ ان دنوں یارو
قلندروں پہ فقیہوں کا خوف طاری ہے
یہ ہیں وہ تیرہ دلانِ قلمروِ تاریخ
جو روشنائی ءِ دانش کا خون کرتے رہے
یہی تو ہیں جو حکیموں کی حکمتوں کے خلاف
ہر اک دور میں حاکم کے کان بھرتے رہے
ہیں ظلمتوں کی مربی طبیعتیں ان کی
کبھی یہ روشنیِ طبع کو نہیں مانے
ہے روشنی کا انہیں ایک ہی نظارہ پسند
کہ جشنِ فتح منے اور جلیں کتب خانے
دیا ہے کام انہیں شب کے سر پرستوں نے
سپیدہِ سحری کو سیاہ کرنے کا
ملا ہے عہدہ کلیسائے عرب سے ان کو
شعورِ مشرقِ نو کو تباہ کرنے کا
گزشتہ عہد گزرنے ہی میں نہیں آتا
یہ حادثہ بھی لکھو معجزوں کے خانے میں
جو رد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے
وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *