بہار! تو مرے یار بدن بہار کو دیکھ
وہی ہے سوز فراق از وصال تا بہ وصال
نہ بجھ سکے گی مری پیاس، میرے پیار کو دیکھ
ورود قاصد گلگوں قبائے جاناں سے
ج اب کے دشت میں آئی ہے، اس بہار کو دیکھ
ہے رنگ حیلہء پرویز اڑا ہوا اب کے
شکوہ تیشہ بدوشان تازہ کار کو دیکھ
خدا کو حق کے مقابل میں کھینچ لائے ہیں
ذرا زوال خدایان روزگار کو دیکھ
دمک اٹھے وہ کنائے، چمک اٹھے سائے
فروغ شعلہ فشانان حرف دار کو دیکھ
ہے دستہ دستہ عجب شور رقص و جامہ دردی
نشاط کوکبہء رہ گزار یار کو دیکھ
ترانہ خواں ہیں کبھی اور گلہ کناں ہیں کبھی
گروہ لحظہ شمارانِ انتظار کو دیکھ
جون ایلیا