کاش، اے کاش، ہم ٹھہر سکتے
یہ ستارے، یہ شبنمی آنسو
نہ لُٹاؤ یہ قیمتی آنسو
کل بھی آنسو تھے، آج بھی آنسو
ہو گئی اپنی زندگی آنسو
تھی یہ حسرت کہ زخم بھر سکتے
کاش، اے کاش، ہم ٹھہر سکتے
جانِ جاناں، یہ نازنیں گیسو
نکہتِ افشاں و سُنبلیں گیسو
ہائے آشوب آفریں گیسو
یہ پریشان، عنبریں گیسو
وائے حسرت کہ یہ سنور سکتے
کاش، اے کاش، ہم ٹھہر سکتے
ہم کو خود سے گزر ہی جانا تھا
یوں ہر اک زخم بھر ہی جانا تھا
جو تھا کرنا وہ کر ہی جانا تھا
ایسے عالم میں مر ہی جانا تھا
شرم آتی ہے، کاش، مر سکتے
کاش، اے کاش، ہم ٹھہر سکتے
کیا کریں، کوئی اختیار نہیں
اپنا گھر ہم کو سازگار نہیں
اب کسی شے کا انتظار نہیں
وقت کا کوئی اعتبار نہیں
وقت کا اعتبار کر سکتے
کاش، اے کاش، ہم ٹھہر سکتے
دل کے حق میں ذرا نہیں ہے وقت
بے گماں مقتلِ یقیں ہے وقت
ہر نَفَس قہر آفریں ہے وقت
ایک دریا ئے آتشیں ہے وقت
کاش، ہم اس کے پار اُتر سکتے
کاش، اے کاش، ہم ٹھہر سکتے
جون ایلیا