کتنے عیش اُڑاتے ہوں گے، کتنے اِتراتے ہونگے

کتنے عیش اُڑاتے ہوں گے، کتنے اِتراتے ہونگے
جانے کیسے لوگ وہ ہونگے جو اُس کو بھاتے ہونگے
شام ہوئے خوش باش یہاں کے میرے پاس آ جاتے ہیں
میرے بجھنے کا نظارہ کرنے آ جاتے ہونگے
اُس کی یاد کی بادِ صبا میں اور تو کیا ہوتا ہوگا
یوں ہی میرے بال ہیں بکھرے اور بکھر جاتے ہوں گے
وہ جو نہ آنے والا ہے نا، اُس سے ہم کو مطلب تھا
آنے والوں سے کیا مطلب، آتے ہیں آتے ہونگے
یارو! کچھ تو حال سناؤ اُس کی قیامت بانہوں کا
وہ جو سمٹتے ہوں گے اُس میں وہ تو مر جاتے ہونگے
بند رہے جن کا دروازہ ایسے گھروں کی مت پوچھو
دیواریں گر جاتی ہوں گی، آنگن رہ جاتے ہوں گے
میرے سانس اُکھڑتے ہی سب بین کریں گے رؤئیں گے
یعنی میرے بعد بھی یعنی، سانس لیے جاتے ہوں گے
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *