کچھ بھی ہوا پر اپنے ساتھ اپنی گذر تو ہو گئی

کچھ بھی ہوا پر اپنے ساتھ اپنی گذر تو ہو گئی
چاہے کسی طرح ہوئی، عمر بسر تو ہو گئی
اس کا نہ تھا کوئی ملال اور نہ کوئی حالِ حال
شام گہِ ملال میں مجھ کو خبر تو ہو گئی
رودِ فغانِ خامشی دل میں ہے ایک موج زن
ایک عجیب واردات لب کے اُدھر تو ہو گئی
سمتِ گماں کی تھی عطا ایک ہوائے عنبرین
رہے سفر کی جونؔ زادِ سفر تو ہو گئی
ہے شبِ دل میں خیمہ زن ایک سرودِ روشنی
تم کو سَحَر کی تھی ہوس، جونؔ سَحَر تو ہو گئی
اس کو نہیں تھا میرا پاس، جاتے ہوئے نگاہ سے
مجھ کو خوشی ہے روزیِ دیدۂ تر تو ہو گئی
اب لبِ پُر نَفَس سے ہے اپنا گذر نَفَس نَفَس
اپنے لیے اک آپ میں، راہ گذر تو ہو گئی
تمکنت خیال میں، میں نے کہا کہ تم ہو کیا
یعنی کہ اک گزارشِ بارِ دِگر تو ہو گئی
پُر سُخناں پُرسکوت، شکوہ کُناں ہو کس لیے
عرضِ ہُنر کیے بغیر عرضِ ہُنر تو ہو گئی
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *