کفِ سفیدِ سرِ ساحلِ تمنا ہے

کفِ سفیدِ سرِ ساحلِ تمنا ہے
اور اس کے بعد سرابوں کا ایک دریا ہے
یہ آرزو کا فسوں زار جاودانہ کیا
نہ آرزو، نہ فسوں زار جاودانہ ہے
ہے کب سے پردئہ آواز کو سکوتِ ہوس
سکوت پردئہ آواز کو ترستا ہے
ہے درمیانہ ازل ہی سے ایک ترک سخن
پر اک سخن جو ازل ہی سے درمیانہ ہے
یہ خاک داں ہے بس اک روز نہ تو ہم کا
یہ روزنہ ہی توہم کا ایک توشہ ہے
نہ جانے کب سے اک آشوب ہے سوالوں کا
مگر سوال تو یہ ہے کہ مسئلہ کیا ہے
نہ پوچھ حالت جاں کاہ تندی پرواز
تکان بال و پر جاں ہی راحت افزا ہے
وہ جانِ خلوتِ ممکن ہے دل کے پہلو میں
اور ایک حشرِ مراد محال برپا ہے
ہے اس کا نافِ پیالہ غضب کہ مت پوچھو
کہ اس کی ایک جھلک اک بلا کا نشہ ہے
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *