کوئی نہیں یہاں خموش، کوئی پکارتا نہیں

کوئی نہیں یہاں خموش، کوئی پکارتا نہیں
شہر میں ایک شور ہے اور کوئی صدا نہیں
آج وہ پڑھ لیا گیا جس کو پڑھا نہ جا سکا
آج کسی کتاب میں کچھ بھی لکھا ہوا نہیں
اپنے سبھی گلے بجا، پر ہے یہی کہ دل رُبا
میرا ترا معاملہ عشق کے بس کا تھا ہی نہیں
خرچ چلے گا اب مرا کس کے حساب میں بھلا
سب کے لیے بہت ہوں میں، اپنے لیے ذرا نہیں
جائیے خود میں رایگاں اور وہ یوں کہ دوستاں
ذات کا کوئی ماجرا، شہر کا ماجرا نہیں
سینہ بہ سینہ لب بہ لب ایک فراق ہے کیا ہے
ایک فراق ہے کہ ہے، ایک فراق کیا نہیں
اپنا شمار کیجیو اے مری جان! تو کبھی
میں نے بھی اپنے آپ کو آج تلک گِنا نہیں
تو وہ بدن ہے جس میں جان، آج لگا ہے جی مرا
جو تو کہیں لگا ترا، سن، ترا جی لگا نہیں
نام ہی نام چار سو، ایک ہجوم رُوبرو
کوئی تو ہو مرے سوا، کوئی مرے سوا نہیں
اپنی جبیں پہ میں نے آج دیں کوئی بار دستکیں
کوئی پتا بھی ہے ترا، میرا کوئی پتا نہیں
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *