اسی گماں کو بچا لوں کہ درمیاں ہے یہی
یہ آدمی کے ہیں انفاس جس کے زہر فروش
اسے بٹھاؤ کہ میرا مزاج داں ہے یہی
کبھی کبھی جو نہ آؤ نظر تو سہہ لیں گے
نظر سے دُور نہ ہونا کہ امتحاں ہے یہی
میں آسماں کا عجب کچھ لحاظ رکھتا ہوں
جو اس زمین کو سہہ لے وہ آسماں ہے یہی
یہ ایک لمحہ جو دریافت کر لیا میں نے
وصالِ جاں ہے یہی اور فراقِ جاں ہے یہی
تم اُن میں سے ہو جو یاں فتح مند ٹھہرے ہیں
سنو کہ وجہِ غمِ دل شگستگاں ہے یہی
جون ایلیا