اس چشم نے پلائی مگر زہر میں ہمیں
فتنے اٹھے ہیں ہم سے بہت تیرے شہر میں
آنا نہ چاہیے تھا ترے شہر میں ہمیں
نہلا رہا ہے پرتوِ رنگِ بدن ترا
صبح بہار کی شفقیں نہر میں ہمیں
اب آ کہ بے گلہ ہی ملیں گے ہم اب تجھے
کوئی بھی غم رہا نہ غم دہر میں ہمیں
ہر سانس اس کا شعلہِ خواہش فروز تھا
کیسا ہوس فزا وہ لگا، قہر میں ہمیں
جون ایلیا