ایک دو اور پھر تین اور پھر چار، پھر پانچ اور چھے
یہ روزینہ ساری نگاہوں کا روزینہ ہے
اس کو تم میرے کشکول میں ڈال دو
میرے کشکول میں ہر جہت ہاتھ پھیلائے
رفتار کی گرد سے بھیک مانگا کرے گی
ہر جہت میری پلکوں کے کشکول میں ہے
اور ہر وہ جہت میرا کشکول جس سے تہی ہے
اسے میں خدا کو ہبہ کر چکا ہوں
ہر جہت بے جہت ہے، جہت کی جہت لا جہت ہے
سو، پھر ہر جہت اپنے “لا” میں تمھاری زمینوں، زمانوں، مکانوں
اور ان آسماں آسمانوں کا بس اک تلفظ ہے
جس کے کسی حرف اور لفظ کا کوئی مطلب نہیں ہے
وجود اور موجود اور ہاں ایک ان کے لوارے کو (تاریخ کو)
مرتبانوں میں لہسن ، کلونجی، نمک اور میتھی کے
اور سونف کے ساتھ بھر دو
پھر ان مرتبانوں کو سر بند کر کے
انھیں نور کی دھوپ میں دھر دو
یہی ایک صورت ہے
جس سے وجود اور موجود اور اپنی تاریخ
اثبات کی خوش خوراکی کے کام آسکے گی
میں نے چمچے سے ژرفا، درازا، فراخا کو
اور ان کے روغن کو
ان کے مسالے کو پہلے گھمایا
اور پھر طشتری میں نکالا تو پھر ایک نوالہ نہیں
میں نے تو دو نوالے لیے
ہاں، وجود اور موجود تاریخ
تاریخ کیا دہر، دیموم اور وہ کچھ
جو ان کے حسابوں میں لکھا گیا ہے
وہ اک چٹپٹا پن ہے
جو تم کو کم اشتہا میں بھی دو
ہاں، دو نوالے تو کھلوا ہی دے گا
ایک “ہے” کا نوالہ اور اک “نہیں” کا نوالہ ہے
کاف اور لام ، اور میم اور ہے
جون ایلیا
(راموز)