کانون اول کی اس سرما زدہ اور ویران شام کو شبیب چرواہا جب چراگاہ سے اپنی بھیڑیں لے کر پلٹا اور مغربی دروازے سے اماردہ بستی میں داخل ہوا تو اس کی زبان فساد اگلنے لگی اور گورستان ترازو برداراں کے نزدیک پہنچ کر اس نے چلّانا شروع کر دیا
“لوگو بستیوں کا ملامت گر آرہا ہے
گھروں کے دروازے بند کر لو
جحود مجنون آرہا ہے
جحود مجنون آرہا ہے
ملامتیں بڑبڑا رہی ہیں عتاب شیشے چبا رہا ہے
ہے کتنی ویران و وحشت انگیز شامِ پائیز
ملال آمیز و ھادثہ شام پائیز
وہ اپنے آشوک ناک سایوں کو اپنے ہمراہ لا رہا ہے
غضب تو دیکھو، وہ اپنی بستی پہ اپنے زندیق بد زبانوں کو
اپنے ملحد حواریوں کو اور اپنے مجنون شورہ پشتوں کو بے محابا چڑھا کے لایا ہے
غضب تو دیکھو !
وہ آ رہا ہے وہ آگیا ہے
گھروں کے دروازے بند کر لو
سب اپنے کانوں کو بند رکھیں
گناہ کانوں کے راستے روح میں در آتے ہیں”
شبیب اپنی بھیڑوں کو ہانکتا اور ہونکتا ہوا مشرق کی طرف بڑھتا گیا اور گھروں کے دروازے بند ہوتے گئے۔ راستے میں اسے پلاش پوش بوڑھا مرداس ملا۔ مرداس نے اسے بہ شدت جھڑکا اور کہا۔ “او گندہ بغل، فاحشہ کے بیٹے! مخلوق خدا کو آخر کس سے ڈرا رہا ہے؟ کیا اس معصوم اور برگزیدہ جوان سے جو ہماری ہی خاطر مجنون کہلایا جا رہا ہے۔ جو ہمارے ہی لیے اپنا سینہ دکھا رہا ہے۔ خبردار جو اس صاحب جنونِ الوہی کی شان میں آیندہ کوئی گستاخی کی اور خبردار جو تُو نے جہاں دیدہ بچوں کو کچھ کہا۔” شبیب منہ بگاڑ کر آگے بڑھ گیا اور اسے بھیڑوں کی گرد نے نگل لیا۔
اس کے بعد مرداس ایک کوچے میں داخل ہو گیا اور اس نے ایک شکستہ دروازے پر جا کر کسی نابینا سماعت کو آواز دی۔ “الیاس، الیاس! جہاں دیدہ بچے آئے ہیں، جہاں دیدہ بچے آئے ہیں۔”
نا بینا سماعت نے اپنی پلکوں کو جلدی جلدی جھپکاتے ہوئے پوچھا۔ “وہ بھی آیا ہے؟”
مرداس نے جواب دیا۔ “ہاں وہی تو لایا ہے۔”
کچھ دیر بعد نادیدہ زمینوں اور نایافتہ زمانوں کی ژولیدہ مُو اور بے آرام روح، جحود، صاحب طیلسانِ اسود، جحود اپنے حروف ہفت گانہ، نوج دار کلاہ کے حلقے میں اماروہ کے مغربی دروازے سے بستی کے حاشیے پر نمودار ہوا۔ حروف اس کے گردوپیش بین کرتے ہوئے چل رہے تھے۔ وہ سب نوجوان اور جوان پھٹی ہوئی چادریں لپیٹے ہوئے تھے، قوموں اور قرنوں کے دکھوں نے ان کے جسموں کو نڈھال کر دیا تھا پر ان کی روحیں اپنے جنون میں توانا تھیں۔ ان کے گلوں میں بستے لٹکے ہوئے تھے، بغلوں میں تختیاں دبی ہوئی تھیں اور ہاتھوں میں نرکل کے قلم تھے۔ سرما زدہ شام نے اپنی ویرانی میں ان کا استقبال کیا۔
وہ آیا اور شام کی ویرانی میں نافذ ہو گیا۔ میدان ترازو برداراں کے وسط میں پہنچ کر وہ اور اس کے حروف بُرج بیوگانِ باکرہ کی طرف بڑھے جو چوراہے کے بیچوں بیچ ایک ہفت زینہ چبوترے پر قائم تھا۔ حضراتِ حروف نے اپنی تختیوں اور بستوں کو چبوترے پر رکھا اور آستین سے آنسو پونچھتے ہوئے سیڑھیوں پر بیٹھ گئے۔ فضا میں زمہریری ہوائیں سنسنا رہی تھیں اور وہ سردی سے کانپ رہے تھے۔ ان کی ایڑھیاں پاش پاش تھیں اور تلوے پارہ پارہ۔ وہ اپنے پیروں میں دشوار گزار مسافتوں کی گرد پہنے ہوئے تھے۔ جحود زمانوں اور زمینوں میں جلتا اور بجھتا ہوا یہاں آیا تھا اور بے درماں غصے اور بے اماں جھنجھلاہٹیں اپنے ساتھ لایا تھا۔ سو اس نے یہ ساری متاع اس ویران زمہریری فراخنائے میں بکھیر دی۔ قریبی مکانوں کے مکین انھیں اپنے دریچوں سے جھانک جھانک کر دیکھ رہے تھے۔ جحود چبوترے پر چڑھا اور برج کے پہلو سے پشت لگا کر کھڑا ہو گیا اور گہرا سانس لیا، حروف نے اس کی حرارت کو پہن لیا پھر وہ آواز کا ستونِ آتشیں بن گیا اور وہ آواز یہ ہے۔
ایادرازا، ایاہ پہنا، ایاہ ژرفا، ایاہ بالا
تمام امثال اور اضداد بے ثبوت اور بے حوالہ
سماعتوں کے لیے حوادث کی شام ہے یہ
کہاں ہیں وہ سب کے سب کہاں ہیں؟
کوئی نہیں ہے، کوئی نہیں تھا، کوئی نہ ہو گا
ایادرازا، ایاہ پہنا، ایاہ ژرفا، ایاہ بالا
تمام ارواح اور اشباح بے ثبوت اور بے حوالہ
خشِن مسافت پہ ایک پرچھائیں رہ گئی ہے
جو نیستی میں سسک رہی ہے، گھسٹ رہی ہے
بس ایک پرچھائیں رہ گئی ہے، میں اس کی رانیں کھرچ رہا ہوں
میں اس کے پستاں چبا رہا ہوں
سو، میرے دانتوں میں کر کراہٹ ہے اور مرا خون کھول اٹھا ہے
میں چاہتا ہوں وجود کی بستیوں کو یک سر تباہ کر دوں
بصارتوں میں وبائیں پھیلی ہیں، رویتوں میں مضرتیں ہیں
رخِ مرایا سیاہ کر دو
تمھارا مہمان آگیا ہے
کہاں ہیں یہ سب کے سب کہاں ہیں
یہ کیسے بد بخت میزباں ہیں
خبیث، دیوث، سب طویلوں میں جا گھسے ہیں
تمھیں قسم ہے جو اب کبھی تم وہاں سے باہر قدم نکالو
کواڑ تک بند کر لیے ہیں
میں کہہ رہا ہوں تمام دروازے اپنے گھنٹوں پہ چل کے آئیں
جو مجھ کو گھورے گا اس کی آنکھیں نہ پھوڑ ڈالوں گا
سو، اے عدیمو! دلیل دو اور ہار جاؤ
کہ ہار جانے میں ہی تمھارے خدائے قدوس کی رضا ہے
فانّا مستقبلون اماً لہُ وجوہُٗ ولی وجوہُٗ
جحود اک ایسے امر سے گتھ گیا ہے جس کے ہزار رخ ہیں
جحود کے خود ہزار رخ ہیں
سو، ایک میں ہوں
میں جہلِ اعلیٰ کا مدّعی ہوں
میں جاننے اور نہ جاننے کے تمام اعراض سے بری ہوں
مگر یہ مجھ سے کبھی نہ ہو گا کہ میں وہ پر خاش بھول جاؤں
جو میرے اور میرے جہلِ اعلیٰ کے درمیاں دھول اڑا رہی ہے
میں پوچھتا ہوں یہی وہ عالم ہے؟
میں پوچھتا ہوں یہی وہ آدم ہے جو ثبوتِ وجودِ باری میں پیش ہو گا
نژادِ آدم یہ مت سمجھنا کہ تیرے نسّاب بے خبر ہیں
تُو آبِ گندہ ہے جس کو مجہول شہوتوں نے جھٹک دیا ہے
میں تیرے مابین عطرِ منشم چھڑک کے جاؤں گا اور دیکھوں گا
کون تیرا حفیظ ہو گا
دریدنی ہا، بریدنی ہا، شکستنی ہا، گزشتنی ہا
میں چاہتا ہوں تمام ٹانکے ادھیڑ ڈالوں
کہ اشرفِ خلق کی قبائے وجود یک سر غلط سلی ہے
نژادِ آدم، یہ تیری دوپایگی ہنساتے ہنساتے مجھ کو ہلاک کر دے گی
میں جو بھی سوچوں گا وہ کہوں گا اور اس کی پوری سزا سہوں گا
میں روحِ اعلیٰ کا نوحہ خواں ہوں کہ جس کو ہونا تھا اور نہیں ہے
میں پوچھتا ہوں وہ کیوں نہیں ہے!
نژادِ آدم، تری مصیبت کا کیا ٹھکانا
تجھے یہ سہنا پڑا کہ روحِ وجودِ اعلیٰ کہیں نہیں ہے
برہنگی ہی برہنگی ہے، حجابِ اقصیٰ کہیں نہیں ہے
فقط ترا بوجھ ہے جو تجھ سے ہے اور تجھ پر ہے اور سہارا کہیں نہیں ہے
تری مصیبت کا کیا ٹھکانا ہے
مگر مرا ذہن۔۔۔؟ جو اذیت وہ سہہ رہا ہے
مگر مرا نفس، جو ندامت وہ سہہ رہا ہے
وہ اس مصبت سے کم نہیں ہے
تری مشقت سے کم نہیں ہے
میں جاننے اور نہ جاننے کے تمام اعراض سے بری ہوں
میں جہلِ اعلیٰ کا مدّعی ہوں
اور اس پہ دعوا بھی کر رہا ہوں
پھر اک دعوا اور اس کے بعد ایک اور دعوا
میں ایک کے بعد دوسرے ادّعا کی شہوت میں مبتلا ہوں
سو، کاش میں ایسے دو مرکب ہی بول سکتا
میں ذہن میں ایسے دو ہی جملوں کو تول سکتا
جو میرے حق میں مری ہلاکت سے سوگنا قہر ناک ہوتے
مگر تناقض سے پاک ہوتے
میں پوچھتا ہوں کہ میں وہ آدم ہوں
جو ثبوتِ وجودِ باری میں پیش ہو گا؟
یہ میری دو پا یگی ہنساتے ہنساتے مجھ کو ہلاک کر دے گی
یہ کیا دریچوں سے جھانکتے ہو
حقیر کیڑو، غذا بھی کھائی کہ صرف روحوں کی حمد گائی؟
یہ ایک نر ہے اور ایک مادہ
یہ ایک نر ہے، یہ ریچھنی اس کے عقب میں ہے
ہزار خصمی نے اپنے بھٹ سے فرار ہو کے اب ایک نرّے کو چن لیا ہے
گناہ گارِ ازل ہیں دونوں
نہ جانے کس نقصِ آفرینش کا نقشِ ردّ و بدل ہیں دونوں
گناہ گارِ ازل، سرین و سمک چھپائے ہوئے کھڑے ہیں
اور ان کی باچھیں کھلی ہوئی ہیں
یہ میری تضحیک ہو رہی ہے
پہ ہنس رہے ہیں کہ رو رہے ہیں
یہ فیصلہ مکھّیاں کریں گی، یہ فیصلہ مکڑیاں کریں گی
یہ اپنے بارے میں خود ہی ہر بات کہنے والا
اور اس پہ نادم نہ ہونے والا
عجیب تر ہے
یہ اپنی آنکھوں سے اپنا پیشاب رونے والا
غریب تر ہے
شکم میں فضلہ بھرا ہوا ہے مگر یہ مبرز کو دھو رہا ہے
یہ اپنے مبرز کو دھونے والا عجیب تر ہے، غریب تر ہے
سقیطِ نسناس میری نظروں سے دور ہو جا
میری نظروں سے دور ہو جا
خدا وہی ہے، وہی ہے جو اس وجودِ ناقص کی بستیوں کو تباہ کر دے
رخِ مرایا سیاہ کر دے
عدم کو اس کا گواہ کر دے
عدم میں اک رمز ہے جو صلبِ وجود و رحمِ جنا سے بھی چھپا ہوا ہے
وہ رمز کیا ہے؟ وہ رمز کیا ہے؟ جحود کیڑے وہ رمز کیا ہے
جحود کیڑا تو جہلِ اعلیٰ کا مدّعی ہے
جحود کیڑا تو جاننے اور نہ جاننے کے تمام اعراض سے بری ہے
ایادرازا، ایاہ پہنا، ایاہ ژرفا، ایاہ بالا
تمام امثال اور اضداد بے ثبوت اور بے حوالہ
نہ کہنے والا، نہ سننے والا
ایاہ ژرفا، ایاہ بالا
(پھر جحود سکوت میں کائن و متکوّن ہو گیا، تب حروف کلام سے متمسک ہوئے اور ختمِ بیان و بلاغ کا ترقیمہ پڑھا۔)
جحود صدیوں میں جینے والا، جحود لمحوں میں مرنے والا
ایاہ ژرفا، ایاہ بالا
جون ایلیا
(راموز)