مزبلے پر پڑا حیض کا ایک لتّا
جو شہوت کے سب سے نفاست پسند آدمی
ایک شاعر کا سب سے بڑا رنگ ہے
رنگ آہنگ ہے اور یہ حیض کا ایک لتّا کوئی منجمد موسیقی ہے
جو اس مزبلے پر پڑی ہے
محلے کی دوشیزہ، رانوں کے اس بیچ کے رنگ کی
موسیقی کو اٹھا لے، اسے جیب میں دھر لے
میں جو ہوں، میں تو ہر موسیقی اپنی جیبوں میں لے کر پھرا ہوں
کہ میرے لبوں پر تو ہر سننے والے اُجڈ
اور ان گھڑکی خوشنودیاں ہیں
سو اب میرے ہونٹوں کی ہر موسیقی مر رہی ہے جو آواز میری ہے
وہ میرے سینے میں روتی ہے
یا پھر مرے سانس کے سارے پرزوں پہ سوتی ہے
اور سانس ساکت ہیں اور میرا سکت
کہیں ہے تو جیبوں میں ہے
اور جیبوں کے ٹانکے ادھڑتے چلے جا رہے ہیں
سو، جو ہے وہ یہ ہے
اور یہ میرا ہے اور سب کو نہیں خود مجھے بھی لبھاتا رہا ہے
یہ “ہے” ہاں یہی ہے جو گلیوں، گھروں اور شہروں کو
ملکوں کو اور ان فضاؤں کو اور کہکشانوں کو احمق بناتا رہا ہے
یہ کیا ہے، یہ اور کون سا ہے؟ یہ “ہے” میرے اس پل کا ہے
یا پھر اُس پل کا ہے؟
کیا وہ دونوں کوئی ایک ہیں؟ ایک ہے اور اک نہیں ہے
میری پلکوں کو چھوڑو کہ وہ میری پلکیں ہیں اور میں تو
اس لجلجاہٹ کی اور ان سڑاندوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں
ان جنا ہوں جو پانی کی ہیچ اور پوچ الکساہٹ کا بے شجرہ اسقاط ہیں
اور شاید اگر ہو تو کچھ اور ہو اور یہ سب جو میں نے کہا
یا تو وہ میرے بابا کا دھوکا ہو جو میں نے کھایا ہو ان کی
اک دَین ہو جس سے اک باپ نے اپنے بیٹے کو دنیا میں
رہنے کے قابل نہ چھوڑا
مرا باپ بھی خوب تھا اور وہی میرا استاد تھا
سارے استاد جھوٹے ہیں اور جھوٹ ہی دو کا استاد ہے
ایک انسان اور اک خدا، جھوٹ کے دونوں شاگرد
اک دوسرے کو سکھاتے پڑھاتے رہے ہیں
مگر اب تو کتنے زمانوں سے میں نے خدا کو پڑھانا، سکھانا
سبھی چھوڑ رکھا ہے
اور اب خدا کی سنو، وہ تو کاہل تھا، کاہل نے اک جھوٹ سکھلا کے
اپنے دعوا کناں ہست کے نیست میں صد ازل ہا ازل کی
عجب فتنہ پرداز اور شور انگیز چپ سادھ رکھی ہے
اگر وہ نہیں ہے، صد افسوس ہاں وہ خدایاں خدا وہ نہیں ہے تو پھر
آج اس رات گولائی کے بیچ اور اس کے مدھم کناروں میں
کوئی برائی بھی کیوں ہے
خدا جب نہیں ہے تو پھر اوجھڑی میں عبیر اور عنبر
لبان اور اذفر کے بدلے ہی کیڑوں بھری گند کیسے بھری ہے؟
جو اب تک نہ ہوتے ہوئے شہر کی ریڑھیوں اور ٹھیلوں کے چاروں طرف اب بھی موجود ہے
اس سے کہہ دو کہ اپنے نہ ہونے کا اعلان کر دے
کہ اس کا گماں سے
شرابوں میں پانی ملا کر دیا جا رہا ہے اور اس جز رسی کے سہارے
کلیساؤں اور مسجدوں، مندروں، خانقاہوں کی آرایشوں کے
وظیفے بندھے ہیں
روشنی! تُو وہاں تک، وہاں سے جہاں تیری رفتار اک بار گی
لنگ کرنے لگے تو بس اک کام کیجو
کہ اپنے جھماکے کو تو لنگ پر اپنے لکھ دیجیو
“میں جہاں تک بھی ہوں اس کے پیچھے اندھیرا ہے
آگے اندھیرا ہے
اور اب جو احوال ہے سو، وہ یہ ہے کہ میں اب
چلوں گی بھی تو بیساکھیوں پر چلوں گی”
جون ایلیا
(راموز)