لَوحِ عوام

لَوحِ عوام
عوام کی آ گہی سے انکار کرنے والو، نظام کہنہ کے
مردہ خانوں کے ظرف و مظروف اور تابوت بیچ کر
اپنے جیب و دامن
کو بھرنے والو!
سڑاندھ اور گندگی کی پاکیزگی پہ اصرار کرنے والو!
یہ سب تمھارا کیا دھرا ہے
یہ سب تمھاری ہلاکت انگیز حکمتوں اور سیاستوں ہی کی مرحمت ہے
تمھاری ہی بخشش و عطا ہے
کہ آج ہر چیز اک تمسخر ہے، مضحکہ ہے، ہمارا دل خون ہو گیا ہے
تمھاری غدّاریوں کا الزام ان شہیدوں کے سر گیا ہے
جنھوں نے آزاد آرزوؤں کے زخم خوردہ بدن میں اپنا لہو انڈیلا
تمھاری غدّاریوں کی تعزیر ان غریبوں کو جھیلنی پڑ رہی ہے جن کی
متاع مہر و وفا نہ ہوتی تو اپنی جھولی میں کچھ نہ ہوتا
تمھاری غداریوں کا بھگتان ان دریدہ لباس محرومیوں نے بھگتا
جو اپنے دستِ ہنر سے تہذیب کے بدن کو سنوارتی ہیں
جو خوں شدہ، خوں چکاں تمنائیں اپنے خوں سے
تمام چہرے نکھارتی ہیں
عوام کی آگہی سے انکار کرنے والو، یہ سب تمھارا کیا دھرا ہے
یہ سب تمھارا کیا دھرا ہے
پکار اے قعم! میرے مجرم، بھری عدالت میں لائے جائیں
گزرنے والے اور ان سے پہلے گزرنے والے، بلائے جائیں
وہ زخم جو روح پر لگے ہیں وہ زخم سب کو دکھائے جائیں
کھرچ دیا جائے ہر نجاست کو ہر جہت سے کھرچ دیا جائے
جو لوگ بوتے ہیں آندھیوں کو، وہی بگولے بھی کاٹتے ہیں
جون ایلیا
(راموز)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *