تمھاری بستی کی مٹی
وہ سب ہوائیں جو اس پہ چلتی ہیں
وہ بگولے جو ان ہواؤں میں ناچتے ہیں
وہ سارے جمگھٹ، وہ سارے جھنجٹ
جو دن سے لے رات تک
پلوں پر لکھے ہوئے اپنے سارے بہکاوے
اپنے کھاتوں میں ٹانکتے ہیں، سڑے ہوئے ہیں
تمھاری آواز جو بھی آواز ہے یہاں کی
وہ اپنا سینہ پکڑ کے قے کر رہی ہے
سڑے ہوئے پانیوں کے نزدیک
آسماں کے دھلے ہوئے دھیان سے بہت دور
کیسی بستی میں آبسے ہو؟
میں اپنے سر کی دونوں آنکھوں سے دیکھتا ہوں
میں دیکھتا ہوں کہ سب سے اونچی چھتوں کے سینے پہ
آگ کے سانپ لوٹتے ہیں
پروس کی ساری بستیوں کی کمینگی، کینہ پروری اور کٹھور پن کا شکار ہو تم
کہاں کا بسنا، کہاں کی بستی، وہاں بسائی گئی ہے بستی
جہاں تمھاری تمام محبت کی جو کمائی ہے
وہ فقط جھینپ اور جھجک ہے
فقط جھکاوٹ ہے
تم اپنی آنکھوں کو اپنی جیبوں میں ڈال لو!
ڈال بھی چکو اب!
سو، اب ذرا کھڑکیوں کے پاس آن کر کھڑے ہو
کھڑے رہو اور اب ذرا کھڑکیوں سے پوچھو
بھلا وہ کیا ہے جو کھڑکیاں بھی نہ دیکھ پائیں
انھوں نے دیکھا تمھاری بستی کو اس کے ٹخنے پکڑ کے اور ٹینٹوا جکڑ کے
اُدھر سے وہ ہے جو کھینچتا ہے، اِدھر سے وہ ہے جو اینچتا ہے
جون ایلیا
(راموز)