مت پوچھو جو رقص کے مستوں کی تھی حالت، رات گئے

مت پوچھو جو رقص کے مستوں کی تھی حالت، رات گئے
رقصِ تمنا میں برپا تھا، شورِ قیامت رات گئے
وہ حلقہ پر احوالوں کا، یار عجب کچھ حلقہ تھا
سب کو تھی پر احوالی میں، سب سے محبت، رات گئے
زندہ دلوں کی فریادوں سے، جھوم رہی تھی دل محفل
سحر تھا اک حسرت مندوں کا، حرف شکایت، رات گئے
سب ہم محفل دھیان سے اپنے، دھیان لگائے بیٹھے تھے
دھیان کا خوش قامت کہ تھا، اپنا قامت رات گئے
وعدہ بے میعاد تھا اس کا اور رہی تھی رات بہت
یوں سمجھو وصلت ایسی تھی، رات کی فرقت، رات گئے
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *