میں سو رہا تھا
میں جوں ہی جاگا اور آنکھ کھولی تو دیکھتا ہوں
کہ میرے سینے پہ شہر تعمیر ہو چکا ہے
مرے بدن میں اِدھر اُدھر آہنیں سلاخیں گڑی ہوئی ہیں
کہ مجھ میں شہتیر نصب ہیں جو بلند ہوتے چلے گئے ہیں
میرے ہاتھوں، ہتھیلیوں اور سارے ڈھانچے پہ اینٹ پتھر پڑا ہوا ہے
اور اس پہ روڑا کُٹا ہوا ہے
اور اس پہ قیر و کزف کہ تہ ہے
پھر اس پہ سنگیں پَرَت جما ہے کہ جس میں قیر و کزف کے ٹانکے
لگے ہوئے ہیں
یہ کوی و برزن کے سلسلے ہیں جو پھیلتے ہی چلے گئے ہیں
بہم فشار آوری کا از ہم گستہ غوغا مری سماعت پہ یاں سے پیہم
شدید پتھراؤ کر رہا ہے
شکستہ ڈھانچوں کے خُن خُنے سائے اپنے کاندھوں پہ نیلے دھبّوں کا بوجھ اٹھائے
سیاہ جھونجل میں خُن خُناتے، خبیث مخروط پوش خُنگروں کے آگے پیچھے
گِھسٹ رہے ہیں
یہ زندہ بنیاد شہر ہے اور میں اس کے نیچے دبا پڑا ہوں
وہ کون ہے جو مجھے نکالے
وہ کون ہے جو مجھے نکالے
جون ایلیا
(راموز)