میں تیرے نامہ ہائے شوق تجھ کو
بہ صد آزردگی لوٹا رہا ہوں
ترا راز دلی ہے ان میں پنہاں
ترا راز دلی لوٹا رہا ہوں
تری دیوانگی کی داستانیں
بہ صد دیوانگی لوٹا رہا ہوں
حیات نا اُمیدی کے سہارے
بہ کرب جانکنی لوٹا رہا ہوں
مجھے صحت کی تاکیدیں ہیں جن سے
وہ احکامِ شہی لوٹا رہا ہوں
مجھے تو نے کبھی کیا کچھ لکھا تھا
وہی ” کیا کچھ” وہی لوٹا رہا ہوں
فقط اک ،، کو ہکن ،، رہناہے مجھ کو
غرور خسروی لوٹا رہا ہوں
مرے شاعر، مرے معبود و مالک
یہ اعزازات بھی لوٹا رہا ہوں
فقط اک کوہکن رہنا ہے مجھ کو
غرورِ خسروی لوٹا رہا ہوں
یہ خط میری متاع زندگی تھے
متاع زندگی لوٹا رہا ہوں
غم ترک محبت آہ یہ غم
میں اپنی ہر خوشی لوٹا رہا ہوں