وجد آتا ہے حال پر اپنے
ابھی مت دِیجیو جواب، کہ میں
جُھوم تو لوُں سوال پر اپنے
عُمر بھر اپنی آرزُو کی ہے
مر نہ جاؤں وصال پر اپنے
اِک عطا ہے مِری ہوس نِگہی
ناز کر خدّ و خال پر اپنے
اپنا شوق ایک حیلہ ساز، سو اب
شک ہے اُس کو جمال پر اپنے
جانے اُس دَم، وہ کِس کا مُمکن ہو
بحث مت کر مُحال پر اپنے
تو بھی آخر کمال کو پہنچا
مست ہوں میں زوال پر اپنے
بس یُونہی میرا گال رکھنے دے
میری جان آج گال پر اپنے
کوئی حالت تو اعتبار میں ہے
خوش ہُوا ہُوں ملال پر اپنے
خود پہ نادم ہُوں جون، یعنی میں
اِن دِنوں، ہُوں کمال پر اپنے
جون ایلیا