مرگ ناگہاں

مرگ ناگہاں
(ماتم مسیحائی)
کس کا لوٹا ہے کارواں تو نے
کیا کیا مرگِ ناگہاں تو نے
وقت کے دلپسند نغموں کو
کردیا نالہ و فغاں تو نے
چھین کر ایک جانِ شیریں کو
تلخ کردی ہے داستاں تو نے
کیا بتاؤں میں کتنی آنکھوں کو
کر دیا آج خوں فشاں تو نے
آفتابِ جہانِ حکمت کو
اے فلک! کھو دیا تو نے
یہ خبر، اف یہ حشر خیز صدا
اس خبر کا یقیں نہیں آتا
قصرِ انفاس اتنا بے بنیاد
خانہِ مرگ و زندگی برباد
کیا تخیل ہے یہ نظامِ جہاں؟
کیا تمسخر ہے عالمِ ایجاد؟
کیسے شاداب پھول کمہلائے
کیسا آباد گھر ہوا برباد
کیسے لوگ اور ان پہ یہ آفت
کیسے دل اور ان پہ یہ افتاد
جو تھے امداد کرنے والوں میں
آہ! اب وہ ہیں قابلِ امداد
سوگواروں کی زیست کا مقصد
یاد، بس یاد اور کیسی یاد
دلِ برباد، عمر بھر آہیں
لبِ فریاد، عمر بھر فریاد
آج ہر دل کی آس ٹوٹ گئی
خود مسیحا کی نبض چھوٹ گئی
اعتبار حیات کچھ بھی نہیں
کچھ نہیں، کائنات کچھ بھی نہیں
سحر و شام، عشرت و آلام
صرف باتیں ہیں، بات کچھ بھی نہیں
سارے اوراق منتشر کر دو
دفتر واقعات، کچھ بھی نہیں
ایک سازش ہے طالعِ قسمت
حاصل التفات، کچھ بھی نہیں
ایک آراستہ جنازہ ہے
زندگی کی برات کچھ بھی نہیں
چارہ گر ختم ہوں، جئیں بیمار
کچھ نہیں صحت و مرض پہ مدا
چارہ گر بھی جو یوں گزر جائیں
پھر بیمار کس کے گھر جائیں
آج کا غم بڑی قیامت ہے
آج سب نقشِ غم ابھر جائیں
ہے بہاروں کی روح، سوگ نشیں
سارے اوراقِ گل بکھر جائیں
کل کا دن ہائے کل کا دن اے جون!
کاش! اس رات ہم بھی مر جائیں
ہے شبِ ماتمِ مسیحائی!!
اشک دامن میں تا سحر جائیں
مرنے والے! ترے جنازے میں
کیا فقط ہم بچشمِ تر جائیں
تو نہیں اے! طبیبِ لاثانی
مر گئے بو علیِ گیلانی
خود مسیحا اَجل سے ہار گیا
زندگی تیرا اعتبار گیا!!
موت بھی ہاتھ مَل رہی ہوگی
ایسی کچھ زندگی گزار گیا!
آج اسبابِ فن ہوئے برباد
آج “قانون” کا وقار گیا
دردمندانِ غم کہاں جائیں
جب مسیحائےِ روزگار گیا
آہ!! دارالشفاء کی ویرانی
آج اس گھر کا برگ و بار گیا
کیا گزرتی ہے آج اس گھر میں
جو بھی آیا وہ اشکبار گیا
ہو گیاعہدِ پُر بہار تمام
آہ! وہ دورِ سازگار گیا
ہوگئی بارگاہِ طب ویران
آخری بار لُٹ گیا یونان
کچھ کہو تو یہ کیا ہوا آخر
کیسے نقشہ بدل گیا آخر
میں نے ان کو ابھی تو دیکھا تھا
اور ابھی وقت ہو گیا آخر
کچھ کہو تو یہ واقعہ کیا ہے
کچھ بتاؤ تو ماجرا آخر
وہ تو دالان میں کھڑے تھے ابھی
کس طرح آئی یہ بلا آخر
چند لمحوں میں ایک گھر کا نظام
ایسے کیونکر بگڑ گیا آخر
کچھ وصیت بھی کر سکے کہ نہیں
آخری وقت کچھ کہا آخر
وہ سفر کی تکان میں ہونگے
غور سے دیکھ بھی لیا آخر
اے زمیں! میرا قلب بن کے دھڑک
اے فلک! تجھ کو کیا ملا آخر
آخری بار ان کو دیکھ چلا
یہ تو میں سوچ بھی نہ سکتا تھا
جون حاضر ہے از پئے تعظیم
حضرتِ عمّ محترم، تسلیم!
آپ تو سو رہے ہیں حجرے میں
گھر میں برپا ہے اک شورِ عظیم
آپ کو کاش یہ خبر ہوتی
ہم پہ نازل ہے کیاعذابِ الیم
ہم نے حصے میں صرف غم پایا
آج یوں قسمتیں ہوئی تقسیم
خلش خار غم سے بسمل ہیں
آپ کے یاسمن مزاج یتیم
آپ کے بعد ان غریبوں کو
کون سمجھے گا لائقِ تکریم
چند لمحوں میں ہو گئی ویران
حکمت و فن کی بارگاہِ قدیم
کیا کہیں، کچھ نہیں ہے کہنے کو
ہائے! کیا غم ملا ہے سہنے کو
عمر بھر یہ سحر نہ آئے گی
یہ سحر عمر بھر نہ آئے گی
غم دل اب نہ پائے گا تسکین
حالت اصلاح پر نہ آئے گی
چشم گریاں! خبر ہے کچھ دل کی
اب بھی تُو خوں سے بھر نہ آئے گی
جو ہوا کارواں کے ساتھ گئی
وہ ہوا لوٹ کر نہ آئے گی
سو گئے لے کے آخری ہچکی
اب صدائے وگرنہ آئے گی
سونگھ لو ان کا تار تار کفن
اب یہ خوشبو! دہر نہ آئے گی
دیکھنے والے دیکھ لیں صورت
پھر یہ صورت نظر نہ آئے گی
نکہت گلشن وقات گئی
کتنی یادوں کی یادگار گئی
لوگ آئے ہیں ان کو چونکا دو
اور ذرا کاغذ و قلم لا دو
ان کو لکھنے ہیں نسخہ ہائے شفا
قبر میں روشنی تو پہنچا دو
وہ بہت جلد آنے والے ہیں
سب مریضوں کو جا کے سمجھا دو
ان کا دل نرم ہے، بہت ہی نرم
بین کر کے نہ ان کو ایذا دو
لو بر آمد ہوئی وہ مسندِ خاص
حکما! جاؤ بڑھ کے کاندھا دو
صلحا! ایک صف میں آجائیں
فضلا! تم ذرا اتروادو
اہلِ خانہ! متاعِ شہر تھے وہ
شہر والوں کو جا کہ پُرسا دو
ان کی عظمت کا کچھ حساب نہ تھا
شہر کیا! دور تک جواب نہ تھا
بول اے ناصحِ شکیبائی!
کیا ضروری تھا موت کیوں آئی؟
دَخل کس کو بھلا مشیت میں
کیا مشیت ہے صرف خودرائی؟
کیا میں پوچھوں کہ اُن کے مرنے سے
کیا ملا کس نے زندگی پائی؟
سب کو مٹنا ہے، سب کو مرنا ہے؟
ڈوب جائے یہ شوق یکتائی!
جبرئیل و خدا کی عمر دراز
اشرف الخلق کی یہ رسوائی!
خواہشِ زیست کس سے چُھوٹی ہے
امتِ صادقین جھوٹی ہے
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *