مرہم جواب

مرہم جواب
ہیں بزم شب میں پر افشاں گماں گماں لمحے
گزر رہا ہے جو سال اس کے رایگاں لمحے
متاع نیم شبی ہیں، دھوئیں کے مرغولے
بکھر رہے ہیں الجھ کر زیاں زیاں لمحے
نہ زرد زرد ہوں کیوں وقت کے لب و رخسار
کہ سال سال گزارے، خزاں خزاں لمحے
عجیب دور گزارا ہے شب نشینوں نے
ہر ایک سال کے لمحے تھے بے اماں لمحے
شمار گاپ نفس میں شمارِ زخم بنے
ہمارے دل کی شکستوں کے نیم جاں لمحے
بھگو گئے ہیں ہمارا نفس نفس خوں میں
حیار خوں شدہ! تیرے وہ خونچکاں لمحے
یہ صرف عمر گزشتہ کی گرد ہے یا ہم
فضا میں پھیلے ہوئے ہیں دھواں دھواں لمحے
٭
سیاہ سال پہ بحران مرگ طاری ہے
نفس نفس پہ تغیر کا حکم جاری ہے
یہ اس تباہ شدہ سال کی ہے آخری شب
کہ جس میں صرف ہلاکت ہے سوگواری ہے
تمام ہو گئی لو، انتظار کی ساعت
قریب منزل صبحِ امیدواری ہے
فروغ ظلمت اہلِ ہوس کا دور گیا
سحر زخان وفا اب تمہاری باری ہے
٭
وہ جبر تھا کہ مرے خواب تک نہ تھے آزاد
مرے خیال کی تنہائیوں کو شکوہ تھا
وہ بے حسی تھی، وہ سنگین بے حسی کہ یہاں
دلوں کو اور دل آرائیوں کو شکوہ تھا
مرے سخن میں نہ تھی شوق دید کی مستی
ترے جمال کی رعنائیوں کو شکوہ تھا
مشاہدات حوادث میں مبتلا تھی نگاہ
تری ادا، تری انگڑائیوں کو شکوہ تھا
غم حیات میں پروائے درد دل بھی نہ تھی
تری وفا کی مسیحائیوں کو شکوہ تھا
٭
ہوا ہے کار طلب سلسلہ امیدوں کا
ہمیں کبھی تو ملے گا صلہ امیدوں کا
٭
نظر میں عکس فروغ پس حجاب تو ہے
نہیں یہ خواب کی تعبیر پھر بھی خواب تو ہے
حیات سلسلہ جنبان آرزو تو ہوئی
نشاط شوق تو ہے، لطف اضطراب تو ہے
ہمارے نام سے آغاز گفتگو تو ہوا
ادائے خاص تو ہے لذب خطاب تو ہے
شکستگاں کے لبوں پر ہیں زخم زخم سوال
مگر یہ بات کہ اب مرہم جواب تو ہے
سراب سوختگاں سے میں اب نہیں مایوس
یہ کم نہیں ہے کہ احساس قحط آب تو ہے
فضائے حسن سماعت تو سازگار ہوئی
سو اب لبوں پہ یہاں ذکر انقلاب تو ہے
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *