مستیء حال کبھی تھی ، کہ نہ تھی ، بھول گئے

مستیء حال کبھی تھی ، کہ نہ تھی ، بھول گئے
یاد اپنی کوئی حالت نہ رہی ، بھول گئے
حرم ناز و ادا تجھ سے بچھڑنے والے
بت گری بھول گئے بت شکنی بھول گئے
کوچہء کج کلہاں تیرے وہ ہجرت زدگان
خود سری بھول گئے خود نگری بھول گئے
یوں مجھے بھیج کے تنہا سر بازار فریب
کیا مرے دوست میری سادہ دلی بھول گئے
میں تو بے حس ہوں ، مجھے درد کا احساس نہیں
چارہ گر کیوں روش چارہ گری بھول گئے؟
مجھے تاکیدِ شکیبائی کا بھیجا جو پیام
آپ شاید مری شوریدہ سری بھول گئے
اب میرے اشک محبت بھی نہیں آپ کو یاد
آپ تو اپنے ہی دامن کی نمی بھول گئے
اب مجھے کوئی دلائے نہ محبت کا یقیں
جو مجھے بھول نہ سکتے تھے وہی بھول گئے
اور کیا چاہتی ہے گردش ایام کہ ہم
اپنا گھر بھول گئے ، اس کی گلی بھول گئے
کیا کہیں کتنی ہی باتیں تھیں جو اب یاد نہیں
کیا کریں ہم سے بڑی بھول ہوئی ، بھول گئے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *