مکاشفہ

مکاشفہ
پناہ مانگو، پناہ مانگو!
فاصلے بدرنگ فتنوں سے نام زد کر دیئے گئے
زمین کے حاشیے زمینی بلاؤں سے بھر دیئے گئے
تمام صدیوں کے جرم اپنی سزا کو پہنچیں گے
داد خواہوں کے داعیے انتہا کو پہنچیں گے
سفید روحوں نے اور میں نے
تمہاری راتوں کے فیصلوں پر نگاہ ڈالی
ہراس، تاریکیوں کے گنبد میں قہقہوں کے مہیب کوندے اُگل رہا تھا
ہمارے رخسار تربتر تھے
سفید روحوں نے اور میں نے
وقت کی خوں گرفتہ رُوحوں کا غم منایا
ہماری پرچھائیاں بغل گیر ہو کے فریاد کر رہی تھیں
“ایاہ حزناہ و احز یناہ”
ہماری پرچھائیوں کے مابین ایک آواز اپنے قامت کے اُسطوانے
پہ شعلہ زن تھی
“میری نفرت کا رنگ نامہرباں ہے
اور اس کے حاشیے سرخ اور گہری سیاہ سمتوں میں پھیلتے ہیں
میں اُن کی آبادیوں پہ جھپٹوں گی
اُن کے محلوں کو چاب جاؤں گی
اُن کی راہوں کو ساری سمتوں سے کاٹ دوں گی
مرے عقب میں دریدہ ملبوس داد خواہوں کا سِیلِ سیال آ رہا ہے”
جون ایلیا
(راموز)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *