میں تو سودا لیے پھرا سَر میں

میں تو سودا لیے پھرا سَر میں
خاک اُڑتی رہی مرے گھر میں
نہ ہوا تو مجھے نصیب تو کیا
میں ہی اپنے نہ تھا مقدر میں
لے کے سمتوں کی ایک بے سمتی
گُم ہوا ہوں میں اپنے پیکر میں
ڈوبیے اِس نگہ کے ساتھ کہاں
دھول ہی دھول ہے سمندر میں
چاہیے کچھ ہنر کا اس کو خیال
ہے جو بے منظری سی منظر میں
مانگ لے کوئی یاد پتھر سے
وقت پتھرا گیا ہے پتھر میں
کیسے پہنچے غنیم تک یہ خبر
گھِر گیا ہوں میں اپنے لشکر میں
ایک دیوار گِر پڑی دل پر
ایک دیوار کھنچ گئی گھر میں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *