نکل آیا میں اپنے اندر سے

نکل آیا میں اپنے اندر سے
اب کوئی ڈر نہیں ہے باہر سے
صبح دفتر گیا تھا کیوں انسان
اب یہ کیوں آ رہا ہے دفتر سے
میرے اندر کجی بلا کی ہے
کیا مجھے کھینچتا ہے مسطر سے
رن کو جاتا ہوں پر نہیں معلوم
آخرش ہوں میں کس کے لشکر سے
اہلِ مجلس تو سوئیں گے تا دیر
آپ کب اتریے گا منبر سے
نہیں بدتر کہ بدترین ہوں میں
ہوں خجل اپنے نصب بہتر سے
بول کر داد کے فقط دو بول
خون تھکوا لو شعبدہ گر سے
اب جو ڈر ہے مجھے تو اس کا ہے
اندر آجائیں گے وہ اندر سے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *