ہے تجھ کو نازش نسرین و نسترن ہونا
ابھی تو زور پہ سودا ہے بت پرستی کا
خدا دکھائے برہمن کا بت شکن ہونا
کروں میں کیا رہِ ہستی کے پیچ و خم کا گلہ
عزیز ہے تری زلفوں کا پر شکن ہونا
کوئی صدا مرے کانوں میں اب نہیں آتی
ستم ہوا ترے نغموں کا ہم وطن ہونا
یہ دلبری یہ بزاکت یہ کارِ شوق و طلب
مٹا گیا مجھے شیریں کا کوہکن ہونا
ہجومِ غم میں سجائی ہے میں نے بزم خیال
نظر جھکا کے ذرا پھر تو ہم سخن ہونا