اور مجھ دل کی بدن آزاریاں
ڈھا گئیں دل کو تری دہلیز پر
تیری قتالہ، سرینیں بھاریاں
اُف، شکن ہائے شکم، جانم تیری
کیا کٹاریں ہیں، کٹاریں کاریاں
ہائے تیری چھاتیوں کا تن تناؤ
پھر تری مجبوریاں، ناچاریاں
تشنہ لب ہے کب سے دل سا شیر خوار
تیرے دُودھوں سے ہیں چشمے جاریاں
دُکھ غرورِ حُسن کے جانا ہے کون
کس نے سمجھیں حسن کی دشواریاں
اپنے درباں کو سنبھالے رکھیے
ہیں ہَوَس کی اپنی عزت داریاں
ہیں سِدھاری کون سے شہروں کی طرف
لڑکیاں وہ دل گلی کی ساریاں
خواب جو تعبیر کے بس کے نہ تھے
دوستوں نے ان پہ جانیں واریاں
خلوتِ مضرابِ سازِ ناز میں
چاہئیں ہم کو تیری سِسکاریاں
لفظ و معنی کا بہم کیوں ہے سخن
کس زمانے میں تھیں ان میں یاریاں
شوق کا اک داؤ بے شوقی بھی ہے
ہم ہیں اس کے حسن کے انکاریاں
مجھ سے بد طَوری نہ کر او شہریار
میرے جوتوں کے ہیں تلوے خاریاں
کھا گئیں اُس ظالمِ مظلوم کو
میری مظلومی نما عیاریاں
جون ایلیا